دو ہزار کی کرنسی نوٹ کے چلن پر پابندی حکومت کیا چاہتی ہے؟

   

ایم کے وینو
آج کل دو ہزار کے نوٹ رکھنے والے کافی پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ حالانکہ حکومت اور آر بی آئی نے بینکوں کو ہدایت دی ہیکہ وہ ایک وقت میں ایک شخص سے صرف 20,000 روپے ہی بدل سکتے ہیں۔ حکومت کے اس طرح کے اقدامات کے پیچھے کئی ایک وجوہات کارفرما ہیں۔ اسی وجہ سے اس نے نوٹوں کی تبدیلی کو بہت مشکل بنا دیا۔ (حال ہی میں منظر عام پر آئی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ دو ہزار کے کرنسی نوٹوں کے بڑے ڈپازٹ کی اطلاع انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کو دینی ضروری ہے۔ اس ضمن میں بتایا گیا کہ اگر رقم فکسڈ ڈپازٹ اور سیونگ ڈپازٹ کے لئے 10 لاکھ روپے اور کرنٹ اکاؤنٹ کے لئے 50 لاکھ روپے کی حد سے زیادہ ہے تو بینکوں کو اس کی اطلاع یا اس کے بارے میں معلومات محکمہ انکم ٹیکس کو فراہم کرنی ہوگی) آپ اور ہم سب اچھی طرح محسوس کرسکتے ہیں کہ حکومت نے جس طرح نوٹ بندی کے غیر دانشمندانہ فیصلہ کے وقت ریزرو بینک آف انڈیا اور ایس بی آئی کو بلی کا بکرا بنایا تھا اسی طرح اب بھی دو ہزار کی کرنسی نوٹوں کے چلن پر پابندی کے لئے (یہ اور بات ہیکہ نوٹوں کی تبدیلی کیلئے چار ماہ کی مہلت دی گئی) بھی آر بی آئی اور ایس بی آئی کے ذریعہ وضاحتوں کا سلسلہ شروع کیا حالانکہ مودی حکومت کو یہ بتانا چاہئے تھا کہ پہلے آپ نے 500 اور 1000 روپے قدر والی کرنسی نوٹ کے چلن پر پابندی کیوں عائد کی اور پھر 2000 کی کرنسی نوٹ بازار میں کیوں متعارف کروائے۔ بہرحال حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں و فیصلوں کا خمیازہ آر بی آئی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اس نے 2016 میں بھی بدنامی کا ٹوکرا حکومت کی بجائے اپنے سرلیا تھا اب بھی اسی روش پر وہ گامزن ہے۔ اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے وضاحت کی ہیکہ جو لوگ 2000 کی کرنسی نوٹ تبدیل کررہے ہیں انہیں کسی قسم کی آئی ڈی (شناخت) فراہم کرنے یا کسی بھی قسم کا فارم پُر کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس وضاحت کی ایک وجہ یہ ہے کہ عام لوگوں میں یہ خوف اور خدشات پیدا ہوگئے تھے کہ حکومت 2000 روپے کے کرنسی نوٹ بدلنے والوں کے پیچھے پڑ جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اب ایس بی آئی اور آر بی آئی کے ذریعہ حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ ایک بار میں 20 ہزار روپے مالیتی 2 ہزار کی کرنسی نوٹ تبدیل کرنے کی خاطر آنے والوں سے کوئی پوچھ تاچھ نہیں کی جائے گی اور انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ بھی ان کے پیچھے نہیں پڑے گا۔ ان سے کوئی سوال نہیں کیا جائے گا۔ ہاں جو لوگ ان کرنسی نوٹ کو تبدیل نہیں بلکہ بینک میں جمع کروا رہے ہیں ان کی پہچان ضرور کی جائے گی اور انہیں بینکوں کے ذریعہ فراہم کردہ فارم پُر کرنا ہوگا۔ واضح رہے کہ 2016 میں نوٹ بندی کے بعد خود وزیر فینانس نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب بینک میں رقم جمع کی جاتی ہے تو اس کے مالک کی شناخت ظاہر ہوتی ہے۔ ایسے میں رقم جمع کروانے والوں سے پوچھ گچھ کا راستہ کھل جاتا ہے کہ آیا جمع کی گئی رقم، جمع کرنے والے کی آمدنی کے مطابق ہے؟ چنانچہ 2016 میں نافذ کی گئی نوٹ بندی کے بعد تقریباً 18 لاکھ ایسے لوگوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان سے پوچھ گچھ کی گئی جنہوںنے رقم جمع کروائی تھی اور آج بھی ایسے بہت سارے لوگوں پر ٹیکس اور جرمانے عائد کئے جارہے ہیں لیکن ایک بات ضرور ہیکہ جس طرح سسٹم عوام کو پھنساتا ہے اسی طرح عوام بھی سسٹم کو چکمہ دینے کے ماہر ہوتے ہیں۔ چنانچہ وہ لوگ جن کے پاس کروڑہا روپے 2000 کی کرنسی نوٹوں کی شکل میں موجود ہیں وہ دوسرے کئی لوگوں کو ان کرنسی نوٹوں کو تبدیل کروانے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں۔ حکومت نے ایس بی آئی کے ذریعہ یہ دعویٰ کیا ہیکہ ملک میں بینکوں کی 1.55 لاکھ برانچس ہیں اور اس طرح ہر برانچ کو اوسطاً 11677 نوٹ تبدیل کرنے ہوں گے۔ اگر دیکھا جائے تو ایک طرح سے کچھ مخصوص گروپوں کو نشانہ بنانے کے لئے پیچیدہ عمل بنائے گئے ہیں۔ یہ ایسے گروپس ہیں جن پر 2000 روپے کے کرنسی نوٹوں کی بڑی مقدار ذخیرہ کرکے رکھنے کا شبہ ہے۔ ویسے بھی فی الوقت 3.62 لاکھ کروڑ روپے مالیتی 2 ہزار کی کرنسی نوٹ چلن میں ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کا کیا ہوگا جن کے پاس سو دو سو کروڑ روپے 2000 کرنسی نوٹوں کی شکل میں موجود ہوں۔ یہ تو ان کے لئے ایک آزمائش ہی ہے۔ اس لئے کہ رواں سال کئی ریاستوں کے اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اور انہیں رقم کی شدید ضرورت ہوگی۔ خاص طور پر بی جے پی اس معاملہ میں کافی بدنام ہے۔ اس پر اپوزیشن جماعتوں نے یہ الزام عائد کررکھا ہے کہ اس نے غیر شفاف طریقوں سے الیکٹورل بانڈس کے ذریعہ اپنے لئے بہت زیادہ فنڈ جمع کرلیا ہے۔ بی جے پی کی انتخابی فنڈنگ پالیسی چت بھی میری پٹ بھی میری والی ہے اور 2000 قدر والی کرنسی نوٹوں کے چلن پر پابندی اس شاطرانہ حکمت عملی کا صرف ایک حصہ ہے۔ لائیومنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق بینکس کو مالیاتی لین دین کی تفصیلات کے حصہ کے طور پر محکمہ انکم ٹیکس کے حکام کو آگاہ کرنا ہوگا۔ یہ بھی کہا گیا کہ انکم ٹیکس عہدہ دار ٹیکس چوری کا پتہ چلانے بینکوں میں جمع کروائی گئی رقومات کے ڈپٹا کی چھان بین کریں گے۔