ہولی میں نفرت کا رنگ …خوشیوں کے دشمن کون؟
تہوار + تناؤ …ملک کیلئے چیلنج
رشیدالدین
رنگ میں بھنگ کا محاورہ تو ہر کسی نے سنا ہوگا لیکن آزاد ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ جب ہولی کے رنگوں کو بھی آلودہ کردیا گیا۔ ملک میں عید اور تہوار بھائی چارہ، مذہبی رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی مثال رہے ہیں۔ تمام مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کے تہوار اور عیدین کا نہ صرف احترام کرتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کی خوشی میں شریک ہوکر فرقہ پرستوں کو یہ پیام دیتے ہیں کہ کوئی بھی مذہب نفرت کی تعلیم نہیں دیتا۔ ہندوستان میں راجہ مہاراجاؤں کے دور سے لے کر آج تک بھی اٹوٹ انسانی رشتوں کو کوئی طاقت کمزور نہ کرسکی۔ گزشتہ 11 برسوں میں ہندوستان کو شاید کسی کی نظر لگ گئی اور عید اور تہوار آتے ہی خوف کے سائے منڈلانے لگتے ہیں۔ عوام کے درمیان نفرت کا بیج بوکر ایک دوسرے کی خوشی سے دور کردیا گیا۔ آج بھی ایسے لاکھوں خاندان موجود ہیں جو عید اور تہوار پر ایک دوسرے کے مکانات پہونچ کر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ گھر کے بچے اور بڑے دوسرے مذاہب کے بزرگوں کو قابل احترام رشتوں سے مخاطب کرتے ہیں۔ گزشتہ 11 برسوں میں ایسا ماحول بتدریج دم توڑنے لگا ہے۔ مرکز میں بی جے پی برسر اقتدار آنے کے بعد سیکولرازم اور مذہبی رواداری کی جگہ نفرت کا کچھ ایسا پرچار کیا گیا کہ لوگ ایک دوسرے کو دشمن تصور کرنے لگے۔ عید اور تہوار قریب آتے ہی نفرت کے سوداگر میدان میں کود پڑتے ہیں اور کسی نہ کسی بہانے خوشیوں کے اِس ماحول کو کشیدہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اُن کا ایجنڈہ محض ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج پیدا کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب سرکاری سرپرستی حاصل ہوجائے تو ماحول بگاڑنے کا کام آسان ہوجاتا ہے۔ رمضان المبارک آتے ہی لاؤڈ اسپیکر پر اذان اور نماز کے علاوہ سڑکوں پر عبادت کے خلاف مہم شروع کردی جاتی ہے۔ صورتحال یہاں تک پہونچ گئی کہ مسلم سرکاری ملازمین کو ایک گھنٹہ قبل گھر جانے اور رمضان میں تاجروں کو کاروبار کی اجازت بھی برداشت نہیں حالانکہ یہ کوئی نیا اقدام نہیں بلکہ کئی دہوں سے جاری روایت ہے۔ عیدالاضحی آتے ہی جانوروں کی قربانی پر اعتراضات اور گاؤکشی کے الزام میں مسلمانوں پر حملے ہر سال کا معمول بن چکا ہے۔ ہندو مذہب کے تہواروں میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مساجد کے پاس پہونچ کر اشتعال انگیز نعرے بازی کی گئی ہو۔ کرکٹ ہو یا کوئی اور گیم ہندوستان کی کامیابی سے ہر کسی کا خوش ہونا فطری ہے لیکن اسپورٹس کو بھی ہندو مسلم کردیا گیا۔ کرکٹ میں ہندوستانی ٹیم کی کامیابی پر مساجد اور مسلم آبادیوں میں پہونچ کر جشن منانا اور اشتعال انگیز نعروں کے ذریعہ یہ تاثر دینا کہ مسلمان ہندوستان کی کامیابی سے خوش نہیں ہیں، یہ صورتحال ملک کے لئے تشویش کا باعث ہے۔ الغرض کوئی بھی عید اور تہوار تنازعہ سے بچ نہیں سکا۔ تازہ ترین معاملہ ہولی تہوار کا رہا جب ملک بھر میں نفرت کی بولیاں سنائی دینے لگیں۔ ہولی دراصل کوئی مذہبی تہوار نہیں ہے بلکہ موسم بہار کی آمد پر خوشیاں منائی جاتی ہیں لیکن فرقہ پرستوں نے اِسے بھی مذہبی رنگ دے دیا۔ ہولی کی خوشیوں میں تمام مذاہب کے شامل ہونے کی روایات آج بھی موجود ہیں۔ جمعہ کے دن ہولی کا واقع ہونا فرقہ پرستوں کے لئے ایک بہترین موقع ثابت ہوا۔ ہولی سے قبل بیان بازی شروع ہوگئی۔ کسی نے مسلمانوں کو جمعہ گھر پر ادا کرنے کا مشورہ دیا تو کسی نے حجاب پہن کر نکلنے کی صلاح دے ڈالی۔ ایک آواز یہ تھی کہ مساجد میں جمعہ ادا نہ کیا جائے اور مساجد کو تالا لگادیا جائے۔ نفرت کے ایک پرچارک نے ساری حدوں کو پار کرتے ہوئے کہاکہ اگر ہولی کا رنگ پسند نہیں تو ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔ نفرت اور اشتعال کی اِن بولیوں پر مرکزی اور بی جے پی ریاستوں کی حکومتوں کی خاموشی معنی خیز ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی جو ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں کیا اُنھیں یہ نفرتی بیان سنائی نہیں دیتے؟ معمولی واقعات کو ’’من کی بات‘‘ پروگرام میں شامل کرنے والے نریندر مودی نے نفرت کے سوداگروں کے خلاف آج تک ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ اترپردیش، بہار اور دیگر ریاستوں میں مساجد کو کپڑے سے ڈھانک کر حکومتوں نے دنگائیوں کے حوصلوں کو بلند کرنے کا کام کیا ہے۔ ہولی کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی سازش سے سنگھ پریوار کے عزائم کا پتہ چلتا ہے جو مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری اور محکوم بنانا چاہتے ہیں۔ ایک طرف شریعت اسلامی میں تبدیلیاں کی جارہی ہیں تو دوسری طرف نفرت انگیز مہم کے ذریعہ مسلمانوں کی جان و مال کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ ہر تہوار کو مذہبی رنگ دے کر ہندوؤں کو مسلمانوں سے دور کرنے کی سازش ہے تاکہ اُنھیں بہ آسانی نشانہ بنایا جاسکے۔ انصاف پسند ہندو بھی یہ سوال کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ کیا دوسرے مذہب کو نشانہ بنائے بغیر تہوار پورا نہیں ہوگا؟ ملک اچھی طرح جانتا ہے کہ نفرت کے یہ سوداگر کون ہیں اور اُن کی سرپرستی کون کررہا ہے؟ ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کے ایجنڈے کے تحت یہ سرگرمیاں جاری ہیں۔ ملک کے سیکولر، جمہوری اور انصاف پسند طاقتوں کو اِسے ایک چیلنج کے طور پر قبول کرتے ہوئے نفرتی عناصر کی مہم کا جواب دینا ہوگا۔ آخرکار کب تک حالات پر تماش بین رہیں گے۔ اگر حالات سے سمجھوتہ کرلیا جائے تو وہ دن دور نہیں جب عبادتوں اور عیدین پر پابندی عائد کردی جائے گی۔
تہوار کا تناؤ سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن گزشتہ 11 برسوں میں ہر تہوار کو تناؤ یعنی کشیدگی سے جوڑ دیا گیا ہے۔ ہولی کے موقع پر نفرتی بریگیڈ کی سرگرمیوں پر ملک کے ایک نامور صحافی جو اتفاق سے ہمارے دوست بھی ہیں، تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ فلم شعلے میں ہولی کا منظر شامل ہے جسے بڑے شوق سے دیکھا اور سنا جاتا ہے۔ یہ کہانی کسی غیر مسلم نے نہیں بلکہ سلیم ۔ جاوید کی جوڑی نے لکھا ہے۔ امیر خسرو، نظیر اکبرآبادی، اور نذیر بنارسی جیسے نامور شعراء نے ہولی پر کلام لکھا ہے۔ بی جے پی دراصل آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے تاکہ ہر ریاست میں تہواروں کے ذریعہ مسلمانوں میں خوف کا ماحول پیدا کیا جائے۔ نفرتی بریگیڈ کی سرگرمیوں کو ہوا دینے میں گودی میڈیا کا بھی اہم رول ہے۔ ہولی تہوار پر روزآنہ قومی میڈیا کے چاٹوکار اینکرس گلا پھاڑ پھاڑ کر مسلمانوں کو گھروں میں نماز ادا کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ایرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر بی جے پی سے فنڈس حاصل کرنے والے یہ اینکرس کبھی عوام کے درمیان نکل کر اُن کی رائے حاصل کریں تو پتہ چلے گا کہ عام آدمی اُن سے کس حد تک ناراض ہے۔ دراصل بی جے پی نے میڈیا ڈپارٹمنٹ کے ذریعہ نفرت کے پھیلاؤ کا کنٹراکٹ گودی میڈیا کے حوالہ کیا ہے۔ اترپردیش اور بہار کے بی جے پی ارکان اسمبلی نے بھی مسلمانوں کو جمعہ کے بارے میں بے طلب مشورے دیتے ہوئے اپنی شہرت میں اضافہ کی کوشش کی ہے۔ یوپی، دہلی، مہاراشٹرا اور دیگر بی جے پی زیراقتدار ریاستوں میں نفرت کی مہم کے درپردہ مقاصد کو بہ آسانی سمجھا جاسکتا ہے لیکن حیرت تو نتیش کمار پر ہے جنھوں نے اقتدار اور کرسی کے لئے بی جے پی سے سمجھوتہ کرلیا ہے۔ بہار میں نتیش کمار کا سہارا لے کر بی جے پی اقتدار پر قبضہ کی تیاری میں ہے۔ آئندہ اسمبلی انتخابات میں نتیش کمار سے مفاہمت کی جائے گی اور زائد نشستیں حاصل کرتے ہوئے چیف منسٹر کے عہدہ پر دعویداری پیش کی جائے گی۔ نتیش کمار کو چندرابابو نائیڈو سے سیکھنا چاہئے کہ کس طرح سیاسی مفاہمت کی جاتی ہے۔ چندرابابو نائیڈو نے بھلے ہی بی جے پی کے ساتھ ملکر انتخابات میں حصہ لیا لیکن اُنھوں نے سیکولر اُصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ہے۔ ہولی کے موقع پر شرپسندوں کی سرگرمیوں سے نمٹنے کے لئے نائیڈو نے پولیس کو واضح ہدایات دی تھیں۔ کانگریس زیر اقتدار ریاستوں سے پہلے چندرابابو نائیڈو نے مسلم سرکاری ملازمین کو ایک گھنٹہ قبل گھر جانے اور مسلم تاجرین کو رات بھر کاروبار کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار نام نہاد سیکولر نتیش کمار کی آڑ میں نفرتی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن آندھراپردیش میں اُن کا ایجنڈہ کامیاب نہیں ہوپائے گا۔ ہنسی تو یوگی آدتیہ ناتھ پر آتی ہے جو ہمیشہ جلتے پر تیل چھڑکنے کا کام کرتے ہوئے خود کو حقیقی معنوں میں ہندو سماج کا مسیحا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تنازعہ چاہے کسی ریاست میں کیوں نہ ہو اترپردیش میں بیٹھ کر یوگی آدتیہ ناتھ اُن پر تبصرہ کرنے سے نہیں چوکتے۔ اورنگ زیب اور شیواجی تنازعہ میں یوگی آدتیہ ناتھ نے مہاراشٹرا کے سماج وادی پارٹی رکن اسمبلی ابو عاصم اعظمی کو اترپردیش بھیجنے کا مشورہ دیا تاکہ اُنھیں سبق سکھایا جاسکے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کی فرقہ پرستی اور حکومت چلانے کا انداز دونوں مختلف ہیں۔ ایک طرف وہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کیلئے دن رات بیان بازی جاری رکھتے ہیں لیکن حکومت چلانے کے لئے مسلمانوں کو ضروری مراعات دینے سے نہیں چوکتے۔ یوگی نے اعلان کیا کہ رمضان المبارک میں مسلمانوں کو ایک گیس سیلنڈر مفت فراہم کیا جائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مسلمانوں سے نفرت ہے تو پھر عید کی خوشیوں میں شامل ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ پتہ یہ چلا کہ یوگی ہو یا کوئی اور وہ سنگھ پریوار کے ریموٹ کنٹرول کے تحت کام کررہے ہیں لیکن جب حکومت چلانے کا معاملہ آتا ہے تو سرکاری مجبوریاں کچھ اور ہیں۔ تیجسوی یادو نے یہ کہتے ہوئے فرقہ پرستوں کو منہ توڑ جواب دیا کہ ہر ایک مسلمان کا تحفظ 6 ہندو کریں گے۔ نعیم اختر برہان پوری نے کیا خوب کہا ہے ؎
اندھیروں کو یہی تو کھل رہا ہے
دِیا میرا ہوا میں جل رہا ہے