دھوکہ تو عقل مند بھی کھاتے ہیں لیکن

   

محمد مصطفی علی سروری
صحافیوں اور میڈیا میں کام کرنے والوں کے متعلق یہ بات مشہور ہے کہ وہ لوگ وہ سب کچھ جانتے ہیں جو عام شہری نہیں جانتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بات بھی بڑی حد تک درست ہے کہ میڈیا میں کارگذار صحافی حضرات کو بعض ایسی مراعات بھی حاصل رہتی ہیں جس کے بارے میں عام آدمی یا شہری تصور نہیں کرسکتا ہے۔

جی ہاں مثال کے طور پر میڈیا والے احباب اہم سرکاری دفاتر اور اعلیٰ عہدیداروں سے راست رابطہ کرسکتے ہیںجبکہ عام شہری یا تو قطار میں ٹھہرتے ہیں یا قانونِ حق معلومات کے تحت درخواست دے کر جواب کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ جمہوریت میں صحافت کو چوتھا ستون تسلیم کیا جاتا ہے۔ اور صحت مند جمہوریت کے لیے صحت مند صحافت کو ضروری بھی مانا گیا ہے۔ قارئین کرام اس ساری تمہید کا مقصد اس ہفتے کے دوران خبروں میں زیر بحث آئے دو ایسے صحافیوں کے متعلق توجہ مبذول کروانا ہے جو کل تک خبر نگاری کا کام کرتے تھے اور آج حالات ایسے بن گئے کہ خود ہی سرخیوں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔
جی ہاں میری مراد ارنب گوسوامی اور ندھی رازدان سے ہے۔ گوسوامی کے متعلق تو بہت سارے لوگ لکھ رہے ہیں اور بول رہے ہیں۔ اس لیے میں اپنی بات ندھی رازدان تک محدود رکھ رہا ہوں۔
وہ قارئین جو ندھی رازدان کے متعلق زیادہ نہیں جانتے ہیں ان کے لیے یہ بتلانا ضروری ہے کہ یہ ایک ایسی خاتون صحافی ہیں جو گذشہ دو دہائیوں سے میدانِ صحافت میں سرگرمِ عمل ہیں اور اب یہ خاتون صحافی کس لیے خبروں کی زینت بنی ہیں وہ بھی جان لیجئے کہ گذشتہ دنوں نے انہوں نے خود سوشیل میڈیا کے پلیٹ فارم سے اس بات کا اعلان کیا کہ گذشتہ برس وہ بھی ایک آن لائن دھوکہ دہی کا شکار ہوگئی ہیں۔
قارئین ذرا اندازہ لگایئے کہ دہلی جیسے شہر کی یہ خاتون صحافی جو کہ NDTV میں برسرکار تھیں اور بطور صحافی ان کی معلومات ان کی شہرت ان کا اثر و رسوخ کچھ بھی کام نہیں آیا اور یہ بھی اپنے آپ کو آن لائن دھوکہ دہی سے محفوظ نہیں رکھ سکی ہے۔ اس پس منظر میں عام شہریوں کو لاحق خطرات کے بارے میں صرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق جیسا کہ اخبار نیو انڈین ایکسپریس نے 15؍ جنوری 2020 کی اشاعت میں لکھا ہے کہ گذشتہ برس ندھی رازدان کو امریکہ کی معروف یونیورسٹی ہارورڈ سے ایک پیشکش آئی کہ وہ بطور اسوسی ایٹ پروفیسر ان کے ہاں جرنلزم کی پروفیسر شپ قبول کرے۔ ندھی رازدان نے اس آفر کو قبول بھی کرلیا اور این ڈی ٹی وی کی ملازمت کو خیر آباد کہہ دیا او راپنے سوشیل میڈیا کے اکائونٹ سے اطلاع دی کہ وہ ستمبر 2020ء میں ہارورڈ یونیورسٹی جوائن کرلیں گی۔ لیکن کرونا وائرس کی وباء سے یہ بات ٹلتی گئی اور جنوری 2021ء آگیا۔ اس طویل انتظار کے دوران ندھی رازدان کو پتہ چلا کہ انہوں نے جس نوکری کو اعزاز سمجھ کر NDTV کو چھوڑا تھا دراصل وہ ان کے ساتھ کی جانے والی دھوکہ دہی تھی۔ کسی نے ہارورڈ یونیورسٹی کے نام پر ان کے ساتھ زبردست فریب کیا تھا۔ اس فریب کے دوران ان کے انٹرویو کا بھی ڈرامہ کیا گیا۔ ان کو باضابطہ لیٹر پیاڈ کے ذریعہ جاب آفر بھی بھیجی گئی۔ اس آن لائن دھوکہ دہی کا شکار بننے والی ندھی رازدان نے یہ بھی شکایت کی کہ ان کو دھوکہ دینے والے افراد نے ان کے ای میل اور سوشل میڈیا کے اکائونٹ تک بھی رسائی حاصل کرلی تھی۔

(21) برس کا طویل تجربہ رکھنے والی اس خاتون صحافی نے اب باضابطہ طور پر پولیس اور یونیورسٹی کے اعلیٰ اہلکاروں سے شکایت درج کروائی اور دھوکہ دہی کرنے والوں کے خلاف سخت ترین کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔ اب یہ تو آنے والا وقت ہی بتلائے گا کہ کن لوگوں نے اور کس کے اشاروں پر ایک سینئر صحافی اور وہ بھی خاتون صحافی کو اس طرح ہراسانی کا نشانہ بنایا۔ اس ایک واقعہ نے اس مسئلے کو ایک مرتبہ پھر سے اجاگر کیا ہے کہ آن لائن دھوکہ دہی سے آج کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ صحافی بھی نہیں۔ قارئین دوسری اہم بات یہ ہے کہ دھوکہ دہی صرف ہندوستانیوں اور ہندوستان تک محدود نہیں ہے۔ کرونا وائرس اور اس کے سبب پیدا شدہ حالات نے جرائم کی شرح میں بھی اضافہ کے اسباب پیدا کیے۔ جہاں لوگوں کی بڑی تعداد کرونا وائرس سے متاثراور پریشان تھی وہیں پر ایسے واقعات بھی سامنے آئے جس سے پتہ چلتا ہے کہ کرونا کے علاج کے نام پر بھی لوگوں کو دھوکہ کا نشانہ بنایا گیا۔

گذشتہ برس جولائی میں ہی حیدرآباد سٹی پولیس نے کویڈ – 19 کے علاج کے نام پر 200 لوگوں کو دھوکہ دینے کے الزام میں سندیپ ریڈی نام کے ایک شخص کو گرفتار کرلیا تھا۔ کووڈ کے علاج کے متعلق جب میڈیا کے ذریعہ یہ بات مشہور ہوئی کہ Plasma تھراپی کے ذریعہ سے کووڈ سے متاثر مریضوں کا علاج کیا جاسکتا ہے تو سندیپ ریڈی نے لوگوں کو پلازما فراہم کرنے کے نام پر دھوکہ دینا شروع کیا۔ پولیس کے حوالے سے دی انڈین ایکسپریس اخبار نے 20؍ جولائی 2020ء کو ایک رپورٹ شائع کی تھی کہ سندیپ ریڈی نام کا ایک ملزم چوری کے دو واقعات میں وشاکھاپٹنم کی جیل میں قید کی سزا کاٹ رہا تھا۔ جیل سے باہر نکلنے کے بعد سندیپ نے دیکھا کہ لوگ کرونا وائرس سے پریشان تھے تو اس نے لوگوں کی اسی پریشانی سے فائدہ اٹھاکر اپنے آپ کو Anti Viral ڈرگ دوا فروخت کرنے والے ایجنٹ اور کویڈ -19 سے صحت یاب ہونے والے کے طور پر لوگوں سے متعارف کروایا اور دوائی دلانے اور پلازما دینے کے نام پرلوگوں سے رقم بٹورنی شروع کی اور پولیس کے مطابق اس کے خلاف 200 سے زائد لوگوں نے شکایت درج کروائی۔

محمد زبیر ایک ہندوستان این آر آئی ہیں جو ابوظہبی میں برسرکار ہیں۔ ایک دن جب وہ اسامان کی خریداری کے لیے مال گئے تھے تو وہاں پر ایک ٹور کمپنی کے ایگزیکیٹو نے ان سے ایک فارم بھروایا کہ اس فارم کے بھرنے والوں کو لکی ڈرا کے ذریعہ انعامات سے نوازا جائے گا۔ محمد زبیر نے لکی ڈرا کے لیے فارم بھرا اور وہ بھول بھی گئے تھے۔ ایک دن انہیں فون آ یا کہ ان کے نام لکی ڈرا میں انعام نکلا ہے۔ انعام کے طور سونے کا سکہ لینے کے بعد زبیر کو بتلایا گیا کہ ان کے ہاں ایک زبردست ٹور پیاکیج ہے جو صرف خاص کر انہیں رعایتی قیمت پر دیا جارہا ہے۔ بس کیا تھا زبیر نے خوشی خوشی اس رعایتی آفر کو قبول کرلیا وار 14 دن کے ٹور پیاکیج سے استفادہ کے لیے 4300 درہم ادا کرڈالے۔ بعد میں انہوں نے جب فون کرنے اور واٹس ایپ کے ذریعہ رابطہ کرنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ فون تو بند ہے۔

کورونا کی وباء کے دور میں جس قدر تیزی کے ساتھ عوام نے انٹرنیٹ، موبائل فون اور دیگر ڈیجیٹل ذرائع کا استعمال شروع کیا ہے اسی تیزی کے ساتھ آن لائن دھوکہ دہی، فریب اور فراڈ کے واقعات بھی بڑھے ہیں۔ ایسے میں عوام کی جانب سے احتیاط ہی پہلا قدم ہے۔ یاد رکھئے گا کوئی چیز فری میں، رعایت پر یا آفر میں کوئی بھی کیوں بانٹے گا۔ ذرا سونچئے گا غور کیجئے۔ آپ کے لیے مشکل نہیں ہے۔ اپنے آپ کو اپنے گھر والوں کو آپ خود دھوکے، فریب اور فراڈ سے بچاسکتے ہیں۔
آخر میں ہم دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت ہم سب کو ہر طرح کی دھوکہ دہی، مکر و فریب اور ہر طرح کی سازشوں سے محفوظ رکھے اور ہمارے لیے آسانیاں پیدا فرمائے۔ آمین۔ یارب العالمین۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
[email protected]