رویش کمار
کشمیر کے پہلگام میں دہشت گردانہ حملہ اور اس میں بے شمار قیمتی جانوں کے ضائع ہونے پر سارے ملک میں غم و اندوہ کی لہر پائی جاتی ہے۔ پہلگام میں دہشت گردانہ حملے کو دور سے دیکھنا کسی کے لئے ممکن نہیں ہے۔ دہشت گردوں نے جن 26 ہندوستانیوں کو قتل کیا ہے، 17 لوگوں کو زخمی کیا ہے انھیں بھلے آپ کل تک نہیں جانتے تھے لیکن آج جانتے بھی ہیں اور ان سے خود کو جڑا ہوا محسوس بھی کرتے ہیں۔ یقینا اس حملہ کا صدمہ گھر گھر پہنچا ہے۔ لوگوں کے پاس الفاظ تعزیت کم پڑتے ہیں، شائد اس لئے بھی بہت غصہ میں ہیں۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ کن سوالوں کے جوابات کا انتظار کیا جانا چاہئے اور اپنی برہمی کا نشانہ کسے بنانا چاہئے اور جسے بنانا چاہئے اسے نہ بناکر کسے بنایا جارہا ہے۔ مذہب پوچھ کر مارا ہے تو ظاہر ہے لوگ اور غصہ میں ہیں، ان کا غصہ مذہب پوچھنے کی وجہ سے بھی بھڑکا ہے لیکن اس غصہ میں بھی ہمیں دہشت گردی کے چہرہ کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ وہ تب بھی اتنا بھیانک اور مکروہ ہے جب وہ مذہب پوچھے بناء بے قصور لوگوں کو نشانہ بناتا ہے مار دیتا ہے۔ یوپی کے دیویدی کو کشمیر سے پیار ہوگیا ہوگا۔ کانپور کے رہنے والے شمیم کی اسی فروری میں شادی ہوئی۔ شادی کے بعد ہی کشمیر گئے اور کشمیر اتنا اچھا لگا کہ پھر سے گئے۔ ان لوگوں کے نام بار بار گھومنے لگے جس کی فہرست حکومت نے جاری کی۔ سشیل تھیال، سید عادل حسین شاہ، ہیمنت جوشی، ونئے نروال، اتول سری کانت سونی، نیرج، ادھیکاری، سدیپ نیوپانے، شبھم دیویدی، پرشانت کمار تپتی، منیش رنجن، این رامچندرن، سنجے لکشمی لالی، دنیش اگروال، سمیر گوہار، دلیپ دسالی، کے ایس چندرا مولی، مدھو سدھن سومی ٹپٹی، سنتوش جگڑا، منجوناتھ راؤ، کستوبا گنبوتے، بھارت بھوش، سمپت پرمار، ستیش پرما، نگے ہالین، سلیش بھائی ہمت بھائی کلاتھیا، ان میں بحریہ کے عہدہ دار ہیں، آئی بی کے عہدہ دار ہیں جو کشمیر گھومنے گئے تھے۔ اروناپردیش، اوڈیشہ، مغربی بنگال، بہار، یوپی، اتراکھنڈ، ہریانہ، تلنگانہ، کرناٹک، کیرالا، تملناڈو، مہاراشٹرا، گجرات، چندی گڑھ اور نیپال کے لوگ پہلگام گئے تھے۔ دہشت گردوں نے ایک ساتھ کتنے خاندانوں اور ریاستوں میں اپنی دہشت پہنچادی۔ یہ وقت اُن سبھی کو اپنی دُعاؤں اور یادوں میں شامل رکھنے کا ہے، درجنوں خاندان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان زخموں کی لپیٹ میں آگئے۔ دہشت گرد جب حملہ کرتا ہے تو پرانے حملوں میں مارے گئے لوگوں کے خاندانوں میں بھی زخموں کو تازہ کردیتا ہے۔ عام شہری سے لے کر فوج اور فوج کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والوں اور پولیس جوانوں کے خاندانوں میں بھی 21 اپریل کو پھر سے حملہ ہوگا جس جگہ پر حملہ ہوا ہے وہ جنوبی کشمیر کا سب سے مقبول ترین علاقہ مانا جاتا ہے۔ اس کی خوبصورتی کا نظارہ کشمیر آنے والوں کی چاہت کا حصہ مانا جاتا ہے۔ اب اس پر داغ لگ گیا ہے۔ بسیرن کو چھوٹا سوئٹزر لینڈ کہا جاتا ہے اس کے بھروسہ مقامی سیاحتی کاروبار پھلتا پھولتا رہا ہے لیکن اب سب پر مارے گئے لوگوں کا خون بہہ رہا ہے۔ دہشت گردی نے اس ہریالی کو لال کردیا۔ 22 اپریل کی دوپہر وہاں ہزاروں کی تعداد میں سیاح تھے، کہیں یہ تعداد 2000 شائع ہوئی ہے کہیں 1500، سوال اُٹھتا ہے کہ اس اونچائی تک جانے کے راستے میں کیا سکیورٹی انتظامات تھے جہاں پر لوگ جمع تھے وہاں سکیورٹی کا کیا حال تھا؟ اگر سکیورٹی تھی تو دہشت گردوں پر جوابی کارروائی کیا ہوئی۔ دہشت گرد اپنی کارروائی کرنے کے بعد فرار کیسے ہوگئے۔ اُسی وقت اُنھیں ڈھیر کیوں نہیں کیا گیا۔ ایک بھی دہشت گرد ڈھیر نہیں ہوا اور نہ موقع پر کوئی پکڑا گیا جہاں ہزاروں لوگ جاتے وہاں سکیورٹی انتظامات یا بندوبست کیسے خراب ہوسکتی ہے۔ اس کی جوابدہی کس کی ہے؟ کیا ابھی تک کسی کے خلاف کارروائی ہوئی؟ دہشت گردوں کا مذہب پوچھ کر مارنا بتارہا تھا کہ وہ اِس بات کو لے کر مطمئن تھے کہ آس پاس سکیورٹی نہیں ہے، انھیں کوئی روکنے والا نہیں۔ وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کا کہنا تھا کہ ’’یہاں میں ہندوستان کے‘‘ عہد کو دہرانا چاہوں گا کہ دہشت گردی کے خلاف ہماری صفر برداشت کی پالیسی ہے۔ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی وزیرداخلہ امیت شاہ کشمیر کے لئے روانہ ہوگئے۔ 23 اپریل کو مہلوکین کے غمزدہ ارکان خاندان سے بھی ملاقات کی اور مقام واقعہ کا دورہ کرنے گئے۔ آپ اس معاملہ میں انڈین اکسپریس کی پوری رپورٹ پڑھ سکتے ہیں جس میں مکمل تفصیلات دی گئی ہیں۔ لوگوں کو سمجھنا چاہئے کہ سیاحوں کے قتل کو لے کر ایمانداری کون برت رہا ہے۔ آپ حکومت سے جواب مانگے بغیر اس واقعہ کو لے کر ایماندار نہیں ہوسکتے۔ 2019 ء میں پلوامہ میں اتنا بڑا حملہ ہوا، کیا کسی کی ذمہ داری طے ہوئی۔ 14کشمیری پنڈتوں کا قتل ہوا، کیا کسی کی جوابدہی طے ہوئی۔ مودی حکومت میں کئی اہم عہدوں پر خاص طرح کے لوگ ہی بیٹھے رہتے ہیں اور ان عہدوں پر کئی سال سے چپکے ہوئے ہیں، ان کی کوئی جوابدہی طے نہیں ہوتی۔ ہم جیسے لوگوں کو ہی نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے۔ اس واقعہ کی مذمت کرنے میں اپوزیشن کی طرف سے کوئی پیچھے نہیں، حکومت کی طرف سے بھی نہیں، سب نے ایک آواز ہوکر مذمت کی۔ یہ اچھی بات ہے کہ کوئی سیاست کرنے کے لئے نہیں لپکا۔ اپوزیشن کے ہر بڑے لیڈر نے حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کا بھروسہ دلایا۔ راہول گاندھی نے وزیرداخلہ امیت شاہ سے بات کی۔ جموں و کشمیر کے چیف منسٹر عمر عبداللہ سے بات کی اور ساتھ کھڑے ہونے کا بھروسہ دلایا۔ جب ہر کوئی ایک ساتھ ہے تو تب کیوں آپس میں نشانہ بنایا جارہا ہے، حکومت سے پوچھنے کے بجائے مودی حکومت کے نقادوں سے کیوں پوچھا جارہا ہے۔