دہشت گرد کو مظلوم اور مظلوم کو دہشت گرد کہتی ہے دنیا

   

محمد ریاض احمد
اسرائیل صرف 7 اکٹوبر 2023 ء سے ہی درندگی کا مظاہرہ نہیں کررہا ہے بلکہ 76 سال قبل اسلام دشمنی اور مسلم دشمن طاقتوں کے ملاپ سے اپنی ناجائز پیدائش کے ساتھ ہی اس نے نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ دنیا بھر میں امن کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس نے اپنی دجالی پالیسیوں، سازشوں اور منصوبوں کے ذریعہ جہاں ساری دنیا کو سودی نظام کے شکنجہ میں جکڑ رکھا ہے وہیں نہتے فلسطینیوں کا قتل عام و نسل کشی کرتا جارہا ہے۔ اسرائیل نے اقوام متحدہ عالمی عدالت انصاف او آئی سی سے لے کر تقریباً عالمی تنظیموں کی جانب سے اس کے خلاف پیش کردہ قراردادوں کو بڑی حقارت کے ساتھ ٹھکرادیا۔ اس کے باوجود دنیا کے کسی ادارے، کسی تنظیم اور کسی ملک میں یہ ہمت نہیں کہ وہ اسرائیل کے خلاف کارروائی کرے۔ آپ تمام کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ 7 اکٹوبر 2023 ء کو اسرائیل پر حملے کے بہانہ اسرائیل نے غزہ میں آباد 23 لاکھ فلسطینیوں کے خلاف زمینی، فضائی حملوں کا آغاز کیا اور اب تک اس نے غزہ پر 1.30 لاکھ ٹن دھماکو مادوں بشمول سفید فاسفورس، میزائیلوں اور بموں کی بارش کرتے ہوئے 41 کیلو میٹر طویل غزہ پٹی کو قبرستان میں تبدیل کردیا۔ عالمی عدالت انصاف نے بھی اسے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب قرار دیا۔ اسرائیل کے فضائی و زمینی حملوں میں تاحال زائداز 43 ہزار فلسطینیوں نے جام شہادت نوش کیا جبکہ 97 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ شہدائاور زخمیوں میں خواتین اور بچوں کی اکثریت ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ غزہ کے 70 تا 80 فیصد عمارتیں بشمول آبادیاں زمین دوز کردی گئیں۔ اسپتالوں، اسکولوں و کالجس اور یونیورسٹیز کا نام و نشان مٹادیا گیا۔ غرض اسرائیل نے غزہ میں وہ سب کچھ کیا جس کا کسی بھی مہذب معاشرہ میں تصور نہیں کیا جاسکتا۔ انصاف اور انسانیت کا تقاضہ تو یہی تھا کہ اسے دنیا دہشت گرد اور بدقماش و بدمعاش ریاست کہتی لیکن افسوس صد افسوس کہ آج دنیا میں اپنے ملک کی آزادی اپنے انسانی حقوق کے تحفظ کی لڑائی لڑنے والوں کو مظلومین دہشت گرد انتہا پسند بنیاد پرست اور ظلم و جبر، قتل و غارت گری، ناانصافی کا بازار گرم کرنے والوں کو مظلوم، مہذب و معتبر کی حیثیت سے پیش کیا جارہا ہے۔ دنیا خاص کر خود کو سوپر پاور تصور کرنے والا امریکہ، اس کے حلیف برطانیہ، جرمنی، اٹلی، فرانس اور احترام انسانیت، حقوق نسواں یہاں تک کہ جانوروں کے حقوق کے محافظ ہونے کا دعویٰ کرنے والے دوسرے ملک بھی پوری طرح اسرائیل کی تائید و حمایت میں کود پڑے ہیں انھیں 43 ہزار سے زائد فلسطینیوں بشمول شیر خوار فلسطینیوں اور خواتین کی شہادت کا کوئی دکھ نہیں ہے۔ شائد اسلام اور مسلم دشمنی میں وہ اس قدر اندھے بہرے اور گونگے ہوگئے ہیں کہ انھیں اسرائیل کے جرائم اس کے گناہ اور فلسطینیوں کے تڑپتے وجود، ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل بستیاں اور شہر نظر نہیں آتے۔ اسرائیلی درندگی کا شکار، اس کے فضائی حملوں کی زد میں آنے والے فلسطینیوں کی چیخیں ان کی آہ و بکا سنائی نہیں دیتی۔ اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں کی مذمت میں ان کے منہ نہیں کھلتے، ان کی زبانیں نہیں چلتی اور وہ بڑی بے شرمی سے خود کو انسانیت کا علمبردار کہتے نہیں تھکتے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ اس قدر بھیانک جرائم و ناقابل معافی گناہوں کے باوجود اسرائیل کی تائید و حمایت کیوں کررہا ہے۔ اسے اور اس کے حلیف و اتحادی ملکوں کو یہ سوچنا چاہئے کہ وہ آخر ایک قابض اور بدقماش و بدمعاش ریاست ایک قاتل ایک دہشت گرد ریاست کا ساتھ کیسے دے سکتے ہیں۔ اسرائیل ڈیفنس فورس نے فلسطینی نومولود بچوں کو تک نہیں بخشا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اس عالمی مجرم کا ساری دنیا ساتھ دے رہی ہے۔ جہاں تک ایران پر اسرائیل کے حملہ کا سوال ہے، ایران نے اسرائیل پر سوپر سانک بالسٹک میزائیلوں (میڈیا رپورٹس کے مطابق ایران نے اسرائیل پر 200 سوپر سانک بالسٹک میزائیل برسائے) جن میں سے اسرائیل کے تین دفاعی نظام ایرن ڈوم، ڈیفنس سسٹم، ڈیوڈ سیلنگ اور عصری لینئر سسٹم اور علاقہ میں تعینات کردہ امریکہ کے دو عصری بیڑوں میں نصب کردہ ڈیفنس سسٹم یا میزائیل شکن سسٹم نے 180 میزائیلوں کو فضاء میں ہی مار گرایا۔ آپ امریکہ اور اس کے حلیف ملکوں کی اسلام دشمنی کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ امریکہ اکٹوبر 2023 سے تاحال اسرائیل کو 50 ہزار ٹن سے زائد اسلحہ و گولہ بارود بشمول مدر بم فراہم کئے جبکہ گزشتہ جمعرات کو ہی امریکہ سے اسرائیل کو 8 ارب 70 کروڑ روپئے کا امدادی پیاکیج حاصل ہوا۔ امریکہ اسرائیل کی پرویژنل حکومت کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک ہے چنانچہ 1948 ء سے اب تک اس نے اسرائیل کو 310 ارب امریکی ڈالرس کی معاشی و فوجی امداد فراہم کی۔
ہاں ! اسرائیل نے صرف غزہ کو ہی تباہ و برباد نہیں کیا بلکہ مغربی کنارہ میں بھی ظالمانہ کارروائیاں کر کے تباہی مچائی۔ حد تو یہ ہے کہ اس نے حماس کے سربراہ اسمعیل ھنیہ کو اپنے خفیہ آپریشن کے ذریعہ ایران میں اس وقت شہید کردیا جب وہ ایران کے نومنتخب صدر پرویز ہزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے تہران گئے ہوئے تھے۔ مکار اسرائیل کی مختلف ایجنسیوں نے صرف اسمعیل ھنیہ کو ہی شہید نہیں کیا بلکہ ان کے فرزندان، دختران، کمسن پوتے، پوتیوں کے بشمول کم از کم 60 ارکان خاندان کو شہید کیا )۔
دوسری طرف اسرائیل نے لبنان میں حزب اللہ اور شام میں بھی ایران کے سفارتکاروں اور انقلابی گارڈس کے کمانڈروں کو اپنے فضائی حملوں کا نشانہ بنایا۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی حزب اللہ سربراہ شیخ حسن نصر اللہ ، ان کی لحت جگر اور حزب اللہ کے کئی ایک کمانڈروں کی شہادت ہے۔ اسرائیل کی یہ کاروائیاں نہتے و مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی، غزہ کو تباہ و برباد کرنا کیا دہشت گردی نہیں ہے؟
ان حالات میں اسرائیل پر ایران کا حملہ یقینا صیہونیوں اور ان کے حامیوں کی انسانیت دشمن کارروائیوں کو روکنے کا ایک ذریعہ بنے گا۔ آج امریکہ سے لیکر برطانیہ غرض ساری دنیا کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ مشرق وسطیٰ بارود کے ڈھیر پر کھڑا ہے۔ انہیں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہیئے کہ اگرایران ۔ اسرائیل چپقلش مکمل طور پر جنگ میں تبدیل ہوتی ہے تو اس کا خمیازہ ساری دنیا کو بھگتنا پڑے گا۔ اسرائیل پر ایران کے مزائل حملوں کے فوری بعد عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں فی بیارل 5 ڈالرس کا اضافہ ہوگیا۔Brunt Crude Oil کی قیمت 75 ڈالر فی بیارل ہوگئی۔ اگر اسرائیل ایران پر جوابی حملہ کرتا ہے تو پھر تیل کی عالمی قیمت 100 ڈالرس سے تجاوز کرجائے گی اور عالمی معیشت تباہ ہوکر رہ جائے گی۔ خاص طور پر ہمارے وطن عزیز ہندوستان کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 3 اکٹوبر کو بی ایس ای میں درج کمپنیوں کو 10 لاکھ کروڑ روپئے کا نقصان ہوا، امبانی کی کمپنی کو صرف دو دن میں 88 ہزار کروڑ روپیوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔
واضح رہے کہ ہندوستان تیل کی اپنی 80 فیصد ضروریات کی تکمیل کیلئے درآمدات پر انحصار کرتا ہے۔ اسرائیل اگر ایران کے تیل کے ذخائر؍ سہولتوں کو نشانہ بناتا ہے تو تیل کی پیداوار والے ممالک تیل کی قیمتوں میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ تیل کی قیمت میں اضافہ کے ساتھ ہی حمل و نقل اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوسکتا ہے۔ جہاں تک ایرانی حملہ کا سوال ہے ایران نے ایک بہت بڑا جوکھم مول لیا ہے اس نے تقریباً ایک سال تک صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور بالآخر اسرائیل پر حملہ کردیا۔ ویسے بھی دنیا کسی بھی طرح جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ روس اور یوکرین جنگ کے جو ایک ہزار دن مکمل ہوچکے ہیں پہلے ہی سارے یوروپ کو پریشان کررکھا ہے۔
بہرحال اب ایسا لگ رہا ہے کہ ایران کرویا مرو کی صورتحال کا سامنا کررہا ہے اور وہ ہر قسم کی سنگین صورتحال کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہے۔ ایران نے اسرائیل پر سوچ سمجھ کر اور پوری تیاریوں کے بعد ہی حملہ کیا ہوگا۔ دوسری جانب عالمی امن کو یقینی بنانے کیلئے لیگ آف نیشن کی جگہ قائم کردہ اقوام متحدہ ( فی الوقت اس کے رکن ممالک کی تعداد 195جن میں فلسطین کے بشمول دو ملکوں کو مبصر ریاستوں کے طور پر شامل کیا گیا ہے ) پوری طرح ناکام ہوچکی ہے اسے بھی فوری تحلیل کردیا جانا چاہیئے کیونکہ اس کے 5 مستقل ارکان امریکہ، چین، فرانس، روس اور برطانیہ کو ہی تمام اختیارات حاصل ہیں اور امریکہ ویٹو پاور کا استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کو بچاتا رہتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مستقل ارکان میں 57 مسلم و عرب ممالک کو شامل کرنے سے گریز کیا گیا۔