دہلی فسادات کے بعد جمعیت علماء ہند کی کوششووں سے مزید 24 لوگوں کی ضمانتیں منظور

,

   

مولانا مدنی نے کہا کہ ملک کے اتحاد، سالمیت اور اس کی گنگا-جمنی تہذیب کے لئے فسادات کوئی اچھی علامت نہیں، وہ مملکتیں تباہ وبرباد ہوجاتی ہیں جو اپنے شہریوں کے ساتھ انصاف نہیں کرتیں، یہ ایک بڑی سچائی ہے

نئی دہلی ۔ 21 دسمبر 2020

جمعیۃ علماء ہند کی کوششوں سے دہلی فساد میں مبینہ طور پرماخوذ مسلم ملزمان کی ضمانت عرضداشتوں کی منظوری کا سلسلہ جاری ہے، کل مزید 24 افراد کی ضمانت کی عرضیاں جمعیۃ علماء ہند کے وکلاء کی کوششوں سے منظور ہوگئیں، قابل ذکر ہے کہ اب تک نچلی عدالت اور دہلی ہائی کورٹ سے کل تیس افراد کی ضمانتیں منظور ہوچکی ہیں، نیز مسلم نوجوانوں کی جیل سے رہائی کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے، گزشتہ روزایک ملزم کی جیل سے رہائی ہوئی ہے۔دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس شریش کیت نے ملزمین ریحان پردھان، ارشد قیوم، ارشاد احمد، محمد ریحان، ریاست علی، شاہ عالم، راشید سیفی اور زبیر احمد کی مشروط ضمانت منظور کی ہے، جبکہ ملزم زبیر احمد کی جیل سے رہائی عمل میں آچکی ہے۔ ان تمام ملزمین کی ضمانتیں ایف آئی ار نمبر 117/2020, 80/2020,120/2020,119/2020 میں عمل آئی ہیں، جبکہ اس سے قبل ملزمین ریاست علی، شاہ عالم، راشید سیفی، ارشد قیوم،، محمد شاداب، محمد عابد، و دیگر ملزمین کی ضمانتیں کڑکڑڈوما سیشن عدالت کے جج ونود کمار یادو نے منظور کی تھی۔ دہلی ہائی کورٹ اور نچلی عدالت نے ملزمین کو پچیس ہزار روپئے کے ذاتی مچلکہ پر ضمانت پر رہا کیے جانے کے احکامات جاری کیے، حالانکہ سرکاری وکیل نے ملزمین کی ضمانت پر رہائی کی سخت لفظوں میں مخالفت کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ملزمین کی ضمانت پر رہائی سے نقض امن میں خلل پڑسکتا ہے، لیکن عدالت نے دفاعی وکلا کے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے ملزمین کی ضمانت عرضداشت منظور کرلی۔جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ملزمین کی پیروی ایڈوکیٹ ظہیر الدین بابر چوہان او ر ان کے معاون وکیل ایڈوکیٹ دنیش نے کی اور عدالت کو بتایا کہ اس معاملے میں پولیس کی جانب سے چار ج شیٹ داخل کی جاچکی ہے اور ملزمین کے خلاف الزامات ڈائرکٹ ثبوت نہیں ہیں، لہذا انہیں ضمانت پر رہا کیا جانا چاہیے، ملزمین پر تعزیرات ہند کی دفعات 147,148,149,436, 427 (خطرناک ہتھیاروں سے فساد برپا کرنا، آتش گیر مادہ یا آگ زنی سے گھروں کو نقصان پہنچانا،غیر قانونی طور پر جمع ہونا) اور پی ڈی پی پی ایکٹ کی دفعہ 3, 4 (عوامی املاک کو آتش گیر مادہ یا آگ زنی سے نقصان پہنچانا) کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا تھا اور ملزمین گذشتہ تین ماہ سے زائد عرصہ سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے۔ جمعیۃ علماء کے توسط سے اب تک دہلی ہائی کورٹ اور سیشن عدالت سے 30 ضمانت عرضداشتیں منظور ہوچکی ہیں ، امید کی جاتی ہے کہ باقی لوگوں کی بھی ضمانتیں جلد منظورہوجایں گی۔ جمعیۃ علماء ہند نے دہلی فسادات میں پھنسائے گے سیکڑوں مسلمانوں کے مقدمات لڑنے کا بیڑا اٹھایا ہے اور صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی کی خصوصی ہدایت پر ملزمین کی ضمانت پر رہائی کے لیئے سیشن عدالت سے لیکر دہلی ہائی کورٹ تک عرضیاں زیر سماعت ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے دہلی فساد میں پولس کے ذریعہ جبراً ماخوذ کئے گئے مزید 24 لوگوں کی ضمانت پر رہائی کا استقبال کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ محض ضمانت پر رہائی جمعیۃ علماء ہند کا مقصودنہیں بلکہ اس کی کوشش ہے کہ جن بے گناہ لوگوں کو فسادمیں جبراًملوث کیا گیا ہے ان کو قانونی طور پر انصاف دلایا جائے ۔انہوں نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کے وکلاء کی ٹیم اسی نکتہ پر کام کررہی ہے اور ان لوگوں کی ضمانت پر رہائی وکلاء کے ٹیم کی پہلی کامیابی ہے لیکن ایسے لوگوں کو مکمل انصاف دلانے تک ہماری یہ قانونی جدوجہد جاری رہے گی۔ مولانا مدنی نے کہا کہ کچھ اخبارات اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹوں نے دہلی فسادکی اصل کہانی کا پردہ چاک کردیا ہے، یہ افسوسناک سچائی دنیا کے سامنے آچکی ہے کہ تفتیش اور کارروائی کے نام پر اصل خاطیوں کو پولس نے بچالیا ، اور ان بے گناہ لوگوں کو جن کا دور دور تک اس فساد سے کوئی تعلق نہیں تھا ملزم بنادیا گیا، اس کھلی ہوئی ناانصافی پر جمعیۃ علماء ہند خاموش بیٹھی نہیں رہ سکتی تھی، چنانچہ اس نے متاثرین کو مفت قانونی امدادفراہم کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کیلئے تجربہ کار وکلاء کا باقاعدہ ایک پینل بھی تشکیل کیا انہوں نے یہ بھی کہا کہ پچھلے 70برسوں سے مذہب کی بنیاد پر ہونے والے تشدد، مظالم اور فسادات کے خلاف جمعیۃعلماء ہند ایک سخت قانون بنانے کا مطالبہ کررہی ہے، جس میں کہیں فساد ہونے کی صورت میں وہاں کی ضلع انتظامیہ کو جوابدہ بنانے کا التزام ہو، مولانا مدنی نے کہا کہ ہمارا طویل تجربہ یہ ہے کہ ڈی ایم اور ایس پی کو اگر اس بات کا خطرہ ہوکہ فساد ہونے کی صورت میں خود ان کی اپنی گردن میں قانون کا پھنداپڑ سکتاہے تو کسی کے چاہنے سے بھی کہیں فساد نہیں ہوسکتا، انہوں نے ایک بارپھر کہا کہ اس طرح کی قانون سازی کے ساتھ ساتھ ایک ایسے قانون کی بھی ضرورت ہے جو راحت، ریلیف اور باز آبادکاری کے کاموں میں بھی یکسانیت لائے اور حکام کو اس کا پابند بھی بنائے، لیکن افسوس ہندوستان جیسے عظیم کثیر تہذیبی اور کثیر مذہبی ملک میں اس طرح کا کوئی قانون موجود نہیں ہے، مولانا مدنی نے کہا کہ اس بات میں اب کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ دہلی فساد منصوبہ بند فساد تھا اور اس کے پیچھے فرقہ پرست طاقتیں کام کررہی تھی ، لیکن یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ بے گناہوں کو گرفتار کرکے تفتیش کی فائل کو تقریباً بند کردیا گیا، جو کردار اس فسادمیں مسلسل سامنے آتے رہے وہ اب بھی موجود ہیں اوراسی طرح زہر افشانی بھی کررہے ہیں، مگر ان کو بے نقاب کرنے اور قانون کے کٹہرے میں لانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جارہی ہے، انہوں نے کہا کہ ملک کے اتحاد، سالمیت اور اس کی گنگا جمنی تہذیب کے لئے یہ کوئی اچھی علامت نہیں ہے، وہ مملکتیں تباہ وبرباد ہو جاتی ہیں جو اپنے شہریوں کے ساتھ انصاف نہیں کرتی، یہ ایک بڑی سچائی ہے اور دنیا کی تاریخ میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں، ملک اورقوم کی ترقی کا راز اتحاد میں ہی پوشیدہ ہیں انتشار و تفریق میں نہیں، اپنے ہی لوگوں کے ساتھ فرقے اور مذہب کی بنیاد پر امتیاز اور ناانصافی کسی بھی مہذب معاشرہ کے لئے ایک بدنما داغ ہیں۔