دہلی فساد کے بعد مسلمان اپنے نام تبدیل کرنے مجبور

,

   

حجاب سے گریز ، السلام علیکم کہنا بھی چھوڑ دیا ، گھروں سے باہر نکلنے مسلمان ہنوز خوفزدہ

نئی دہلی ۔ 4 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) دہلی فساد کے بعد کئی مسلمانوں نے کہا کہ وہ اپنی مذہبی شناخت چھپانے کی ضرورت محسوس کررہے ہیں۔ گھر سے نکل کر سڑک پر چلنا مشکل ہوگیا ہے۔ لوگ چہرے اور لباس کو دیکھ کر شرانگیزی کرسکتے ہیں۔ دہلی کے ایک شہری نے کہا کہ کئی مسلمان خوفزدہ ہوکر روزمرہ کی زندگی میں مصروف ہونے کیلئے نہ صرف اپنے نام تبدیل کررہے ہیں بلکہ اپنی وضع قطع بھی تبدیل کررہے ہیں اور بات چیت کا لہجہ بھی بدل دیا ہے۔ بعض مسلمانوں نے بازاروں میں ایک دوسرے کو السلام علیکم کہنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ دہلی کے ایک شہری شہباز رضوی نے کہا کہ گذشتہ اتوار تقریباً 11 بجے دن وہ بوئینکلگارڈن سے شاہین باغ کی طرف دہلی میٹرو میں سفر کررہے تھے کہ ایک 50 سالہ شخص نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ میٹرو شاہین باغ کی طرف جارہی ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ جی ہاں تین اسٹیشن کے بعد شاہین باغ آتا ہے۔ شہباز نے اس شخص کے چہرے پر اضطرابی کیفیت دیکھی اور وہ سفر تمام پریشان نظر آرہا تھا۔ میں نے انہیں غور سے دیکھنا شروع کیا۔ جب وہ شخص ٹرین سے اتر گیا تو اس نے اپنی جنس پائنٹ کے پاکٹ سے ٹوپی نکالی اور اسے پہن لیا۔ شہباز رضوی نے بتایا کہ اس شخص کو دیکھنے کے بعد مجھے بہت تکلیف ہوئی۔ وہ ضعیف آدمی تھا اور صوم و صلوٰۃ کا پابند نظر آتا تھا۔ اس نے اپنی شناخت چھپانے کیلئے ٹوپی ترک کردی اور اپنا لہجہ بھی بدل کر بات کیا۔ اب دہلی مسلمانوں کیلئے عذاب بنتی جارہی ہے۔ مسلمانوں کے اندر ایک خوف سا پیدا ہوگیا ہے۔ کٹرپسند ہندو تنظیموں سے لاحق خطرات پر یہ لوگ پریشان ہیں۔ مسلم لباس پہننے سے گریز اور مسلمانوں جیسی بات کرنے سے بھی گریز کرنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے نہ صرف عام شہری بلکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تعلیم حاصل کرنے والی ایک لڑکی جو باحجاب رہا کرتی تھی اب اس نے حجاب ترک کردیا ہے۔ اس نے کہا کہ عوام مجھ سے خوش دلی سے بات کرتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ مجھے مشورہ دیتے ہیں کہ اگر تم مسلمان ہو تو اپنے گھر تک رہو۔ اگر حجاب کرکے باہر نکلوگی تو جوکھم مول لینا پڑے گا۔ وہ دہلی فسادات کے بعد گھر سے باہر نہیں نکل سکی۔ مہرین فاطمہ نامی مسلم پی ایچ ڈی اسکالر نے کہا کہ وہ ہمیشہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اللہ حافظ یا السلام علیکم کہتی تھی لیکن اب یہ کہنا بند کردیا ہے۔ میٹرو سفر کے دوران میں خود کو انجلی بتاتی ہوں اور گھر میں میرا نام ادیبہ ہے لیکن ہندو فرقہ پرستوں کے ڈر سے میں نے اپنا نام تبدیل کردیا ہے۔ کشمیر کے ایک شہری حکیم افضل نے کہا کہ کئی مسلمانوں نے اپنا اسلامی حلیہ ہی بدل دیا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں زیرتعلیم طلبہ نے ایک دوسرے کو سلام کرنا یا خدا حافظ کہنا بھی چھوڑ دیا ہے۔