سوشیل میڈیا پر ہلچل کے بعد ویڈیو جانچ کے ماہر کی تصدیق
حیدرآباد۔26فروری(سیاست نیوز) دہلی میں جاری پر تشدد کاروائیوں میں پولیس کے کردار کے متعلق سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ویڈیوکی جانچ کے مطالبوں پر اس کام میں ماہر تصورکئے جانے والے ادارہ
Altnews
کی جانب سے مختلف ویڈیوز کی جانچ کرتے ہوئے اس کی تحقیقی رپورٹ جاری کی جانے لگی ہے۔ دہلی میں فساد کے پہلے دن زخمی نوجوان جو کہ سڑک پر پڑے ہیں ان کو پولیس کی جانب سے زدوکوب کرتے ہوئے انہیں ’’قومی ترانہ ‘‘ پڑھنے کے لئے کہے جانے اور ان کو ’’یہ لو آزادی‘‘ اب ملے گی آزادی کے طعنے کسنے کے ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر کئی لوگوں نے اس ویڈیو کی تصدیق کی خواہش کی جس پر
Altnews
نے ویڈیو کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ ویڈیو دہلی کا ہی ہے اور پولیس کے 8جوانوں کی جانب سے زخمی نوجوانوں کو ہراساں کرتے ہوئے انہیں زدوکوب کئے جانے کا ویڈیو سچا ہے ۔ فساد اور ہنگامہ کے دوران پولیس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ غیر جانبداری کے ساتھ تمام شہریوں کی مدد کرے اور زخمیوں کو فوری طبی امداد کی فراہمی کے اقدامات کئے جائیں لیکن دہلی میں دو یوم قبل شروع ہوئے فساد کے دوران زخمیوں کے ساتھ پولیس کے رویہ اور ان کو ززدوکوب کئے جانے کے ویڈیو نے سوشل میڈا پر جو ہلچل مچائی ہے اس کے بعد اسی سے مربوط ایک اور ویڈیو منظر عام پر آیا جو کہ اونچائی سے لیا گیا تھا اور
Altnews
نے اس ویڈیو کی صداقت کو بھی تسلیم کیا او رکہا کہ ان زخمی نوجوانوں میں ایک نوجوان سے ویب سائٹ کے نمائندہ نے رابطہ کیا ہے جو کہ بے انتہاء خوف کے عالم ہے لیکن اس کے باوجود اس سے بات چیت کی گئی ہے جس میں اس نوجوان نے بتایا کہ دہلی میں جب فساد شروع ہواتو وہ سنگباری اور پولیس لاٹھی چارج کے دوران زخمی ہوئے تو وہ بے سدھ ہوکر سڑک پر گر پڑے جہاں پولیس نے ان کی مدد کرنے کے بجائے انہیں مزید ہراساں کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آیا انہیں ’قومی ترانہ ‘ یاد ہے!اسی حالت میں ان سب کو قومی تارنہ پڑھنے پر مجبور کیا گیا اور جب وہ درد کی شدت سے کراہ رہے تھے تو ان کے منہ میںڈنڈے ڈالنے کی کوشش کی گئی اور کہا گیا کہ یہ لو آزادی اب ملے گی آزادی ‘ اس کے بعد ان نوجوانوں کوکافی دیر تک زدو کوب کیا جاتا رہا۔ ان میں سے ایک نوجوان کے سر پر گہرے زخم ہیں جس کے سبب 10ٹانکے لگائے گئے ہیں۔ اسی طرح اشوک نگر کے علاقہ میں فساد کے دوران مسجد کے مینار پر چڑھ کر ساؤنڈ سسٹم اکھاڑ پھینکنے اور کلس کو توڑنے کی ناکام کاشش کے بعد مسجدکے مینار پر ہنومان کا پرچم لہرائے جانے کے ویڈیو کے متعلق بھی شبہات کا اظہار کیا جانے لگا تھا اور کہا جار ہا تھا کہ یہ ویڈیو دہلی کا نہیں ہے اور پولیس کی جانب سے بھی یہی دعوے کئے جا رہے تھے جس پر سوشل میڈیا پر موجود سرکردہ صحافیوں نے
Altnews
سے خواہش کی کہ مسجد کو نقصان پہنچاتے ہوئے ہنومان کا پرچم مینار پر لہرائے جانے کے ویڈیو کے متعلق حقائق سے آگاہ کریں جس پر اس ویڈیو کی بھی تحقیق کے بعد ویب سائٹ نے اس سے متعلق دیگر ویڈیوز کو بھی منظر عام پر لاتے ہوئے تصدیق کی کہ یہ ویڈیو اشوک نگر کی مسجد کا ہی ہے جو کہ 25 فروری کو فساد کے دوران تیار کیا گیا ہے اس ویڈیو کے دو حصہ سوشل میڈیا پر گشت کر رہے ہیں جن میں ایک قریب سے بنایا گیا ویڈیو ہے جبکہ دوسرے ویڈیو کو کچھ دور مکان کی عمارت سے بنایا گیا ہے۔ دہلی میں جاری پولیس کی موجودگی میں ہنگامہ آرائی اور پولیس کی جانب سے سی سی ٹی وی کیمروں کو توڑنے کے ویڈیو اور دیگر ویڈیوز بھی تیزی سے گشت کرنے لگے ہیں اور ان ویڈیوز کی مختلف ویب سائٹس کی جانب سے تحقیق کی جا رہی ہے اور حقائق کو عوام کے سامنے پیش کیا جا رہاہے۔