ایلا پٹنایک
دہلی اسمبلی انتخاب میں بی جے پی کی ناکامی اور عآپ کی کامیابی ایک روشن باب ہے اور اس کے نتائج سب پر عیاں ہیں لیکن اس کے فوراً بعد فرقہ وارانہ فسادات کی شکل میں دوسرے تاریک دورکا آغاز ہوا۔ دہلی میں 1984 کے بعد کا سب سے بھیانک فساد ہوا۔ اس مرتبہ آزمائش کی تلوار ہندوستان کے وزیر داخلہ امیت شاہ کہ سر پر نہیں بلکہ دہلی کے چیف منسٹر اروند کجریوال کے سر پر لٹک رہی تھی۔ اروند کیجریوال میں دوراندیشی اور دہلی میں دوبارہ انہیں اقتدار کی کرسی پربیٹھانے والے عوام کا احساس ہوتا تو وہ اس آزمائش میں کامیاب ہوتے۔ یہ بات درست ہے کہ دہلی کی پولیس پر ان کا اختیار نہیں ہے لیکن دہلی کا چیف منسٹر اس قدر بے اختیار بھی نہیں ہے کہ صرف فوج کو طلب کرنے اور متاثرہ علاقوں میں کرفیو لگانے کے مطالبے پر اکتفاء کرکے بیٹھ جائے ۔ حکومت صرف مکتوب نگاری کا نام نہیں ہے ۔
دہلی فسادات کے دورانِ اروند کیجریوال نے ٹوئٹ کیا کہ میں پوری رات بہت سے لوگوں کے ساتھ رابطے میں رہا۔ وہ کون لوگ تھے جن کے ساتھ کجریوال نے رابطہ بنا رکھا تھا یہ تو وہی بتاسکتے ہیں لیکن اس بات کا علم ساری دنیا کو ہے کہ نصف شب میں ان کے گھر پر پہنچنے والے مسلم طلباء اور نوجوانوں کے ملاقات کرنے سے انہوں پہلے تو انکار کیا اور پھر دہلی کی سرد رات میں پانی کی بوچھار سے انہیں منتشر کروانے کی مذموم حرکت کی۔ اس پر اکتفاء کرنے کے بجائے ان نوجوانوں کو گرفتار کروانے کی ناقابل تلافی غلطی بھی کردی۔ اس حماقت و بزدلی کی سزا انہیں ضرور ملتی اگر وہ ایوان اسمبلی میں این پی آر کے خلاف قرار داد منظور نہ کرواتے۔ اس قرار داد کو منظور کروا کر اروند کیجریوال نے دہلی فسادات کے دوران ان کے ذریعہ سرزد ہونے والی کوتاہی کا کسی حد تک ازالہ کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ ان کو اسمبلی انتخاب میں ان کو کامیاب کرنے کا فیصلہ غلط نہیں تھا۔
دہلی انتخاب میں عآپ کی کامیابی کے امکانات تو تھے لیکن یہ ہدف بہت آسان بھی نہیں تھا کیونکہ 2015 کی غیر معمولی کامیابی کے بعد سے 2019 کے قومی انتخابات تک اس کے رائے دہندگان کی تعداد میں مسلسل کمی واقع ہوتی رہی تھی۔ 2017 کے بلدیاتی انتخاب میں عآپ کے ووٹ کا تناسب نصف سے بھی کم ہوگیا تھا لیکن پھر بھی وہ دوسرے نمبر پر تھی۔ 2019 کے انتخاب میں دہلی کے رائے دہندگان نے راہول گاندھی کے جارحانہ رویہ کو کجریوال کے نرم لہجے پر ترجیح دی اور عآپ کے رائے دہندگان کی تعداد کانگریس کے مقابلہ 4 فیصد کم ہوگئی۔ ایسے میں کجریوال بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر بی جے پی کی مانند پٹری سے اتر بھی سکتے تھے لیکن و ہ صبر و ضبط کے ساتھ شرافت کا دامن تھامے رہے اور انتخابات جیتنے میں کامیاب ہوئے لیکن فرقہ وارانہ فسادات کے دوران ان کے بزدالانہ رویہ نے مسلمانوں کو مایوس کردیا۔
ایک کامیاب سیاستداں اور سرکاری عہدیدار میں بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ سیاسی رہنما مشکل حالات کے اندر میدان عمل میں نظر آتا ہے اور سرکاری عہدیدار دفتر میں بیٹھ کر رخصت لکھتا ہے۔ اروند کیجریوال ہنوز سرکاری عہدیدار کے خول میں بند ہیں۔ انہوں نے حالات پرتشویش کااظہار کرکے پولیس کی ناکامی کا مرثیہ سنا کر فوج طلب کرنے کا کھوکھلا مشورہ ٹھونکنے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ ان چیزوں کی حیثیت مگرمچھ کے آنسو سے زیادہ نہیں تھی۔ اس وقت جبکہ دہلی جل رہی تھی اروند کجریوال اگر اپنے محل سے نکل کر فساد زدہ علاقے میں آکر ڈیرہ ڈال دیتے تو نہ صرف فساد کی آگ بجھ جاتی بلکہ ان کا نام تاریخ میں رقم ہوجاتا لیکن جو اپنے مقدر میں ازخود رسوائی لکھ لے اس کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ دہلی فسادات میں امیت شاہ انتخاب ہار گئے اور کجریوال کامیابی حاصل کر کے بھی شکست فاش سے دوچار ہوگئے۔ اس لیے اروند کجریوال کی رسوائی امیت شاہ کی ذلت سے بھی زیادہ تھی لیکن انہوں نے این پی آر کی قرار داد منظور کرواکر اپنی کھوئی ہوئی زمین دوبارہ حاصل کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے اور مسلمانوں کا اعتماد حاصل کیا ہے۔
کنہیا کمار کے خلاف ملک سے غداری کا مقدمہ درج کرنے کی اجازت دے کر کجریوال نے عوام کو مایوس کرنے والا ایک اور کام کیا ہے جس پر ہر گوشہ میں ناراضگی پائی جانے کے علاوہ کئی افراد نے ان پر شدید تنقید بھی ہے ۔کانگریس کے سینئر رہنما پی چدمبرم نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی اسٹوڈنٹ یونین کے سابق صدرکنہیا کمار اور دیگر 9 کے خلاف ملک سے بغاوت کا مقدمہ چلانے کی منظوری دینے کے لئے دہلی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کیجریوال حکومت بغاوت سے متعلق قانون کو غلط طریقے سے سمجھنے کے معاملے میں مرکزی حکومت سے کم نہیں ہے۔ پی چدمبرم نے ٹوئٹ کرکے کہا میں کنہیا کمار اور دیگر کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 124 اے اور 120 بی کے تحت مقدمہ چلانے کے لئے دی گئی منظوری سے اتفاق نہیں کرتا۔ دہلی حکومت بغاوت سے متعلق قانون کو غلط انداز سے سمجھنے میں مرکزی حکومت سے کم نہیں ہے۔ واضح رہے کہ دہلی حکومت نے دہلی پولیس کے اسپیشل سیل کو کنہیا کمار اور نو دیگر کے خلاف ملک سے بغاوت کے چار سال پرانے معاملے میں مقدمہ چلانے کے لئے منظوری دے دی ہے۔ ایک سینئر پولیس عہدیدار نے کہا ہمیں دہلی حکومت کی طرف سے کنہیا کمار اور دوسروں پر ملک سے غداری کا مقدمہ چلانے کی منظوری مل گئی ہے۔دہلی پولیس کے خصوصی سیل نے 19 فروری کو دہلی کے سکریٹری داخلہ کو ایک مکتوب لکھا تھا۔ جس میں جے این یو کے سابق صدر کنہیا کمار سے متعلق جے این یو کے ملک بغاوت مقدمہ میں منظوری کے عمل کو تیز کرنے کی درخواست کی تھی۔ دہلی حکومت نے جے این یو طلبا یونین کے سابق صدر کنہیا کمار سمیت دیگر 9 لوگوں پر ملک سے غداری کا مقدمہ چلانے کی اجازت دی اور اس خبر کے پھیلنے کے بعد بالی ووڈ کے مشہور و معروف ہدایت کار انوراگ کشیپ نے کجریوال کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انھوں نے طنزیہ انداز میں ٹوئٹ کرتے ہوئے پوچھا ہے کہ کیجریوال جی، کتنے میں بِکے۔