دیار غیر کے حالات بدلنے لگےجرمنی میں بھی تارکین وطن کیخلاف مہم

   

پروین کمال
گزشتہ دنوں جرمنی میں عام انتخابات کی سرگرمیاں عروج پر رہیں۔ نتائج کے مطابق اس بار جرمنی کی سب سے بڑی قدامت پسند سیاسی پارٹی ’’کرسچن ڈیموکریٹک‘‘ نے جیت حاصل کرلی۔ جس کے مثبت امکانات اس لیے بھی تھے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد اکثر و بیشتر اسی پارٹی نے ملک کا اقتدار سنبھالا ہے اور آج بھی کامیابی حاصل کرلی۔ اس وقت عوام کے پسندیدہ رہنما ’’Friendrich Merz‘‘ کو منتخب کرلیا گیا ہے۔ میرس برسوں سے سیاسی میدان کی جانی مانی شخصیت ہیں۔ ان کی سیاسی کارکردگی ملک کو آگے بڑھانے کی جستجو اور حب الوطنی کے جذبے نے عوام کو ان کی شخصیت سے بہت ہی قریب کردیا ہے۔ ذاتی طور پر ان کی اہلیت اور قابلیت کو جانچتے ہوئے انہیں جرمنی کے چانسلر کی حیثیت سے منتخب کرلیا گیا ہے۔ جنگ کے بعد کی چانسلرشپ کی فہرست میں ان کا نام دسویں نمبر پر آگیا ہے۔ 69 سالہ ’’میرس‘‘ پیشے سے وکیل ہیں۔ قانون کو جیسے انہوں نے اپنے آپ میں سمولیا ہے اور اگر ان کا خاندانی پس منظر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے خاندان کے بیشتر افراد وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں جس کی وجہ سے انہیں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ میرس سیاسی میدان کے بہت پرانے کھلاڑی ہیں اور برسوں سے کرسچن ڈیموکریٹک کے قائد چلے آرہے ہیں۔ وہ اپنے ملک کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ مسائل کے حل کے لیے نئی نئی پالسیاں بن رہی ہیں۔ سب سے پہلے غیر قانونی تارک وطن کو ان کے اپنے ملکوں کو واپس کیا جارہا ہے۔ ان کے اس عزم کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ تارک وطن کی تعداد جیسے تیزی سے برھ رہی ہے ملک میں حملے اور وارداتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ اس بات کو لے کر عوام بھی آوازیں بلند کررہی ہیں اور چانسلر میرس نے بھی کہا ہے کہ تارک وطن کا مسئلہ سب سے پہلے ختم کیا جائے گا۔ کیوں کہ یہ افراد کروڑوں روپیہ اپنے ملکوں کو بھیج رہے ہیں۔ یہ باتیں سرکاری محکموں تک پہنچ گئی ہیں جس سے حکومت کو اندازہ ہوگیا ہے کہ یہ لوگ غیر قانونی طور پر کام کررہے ہیں جبکہ حکومت کی طرف سے ان کی پوری مدد کی جارہی ہے۔ پوری تحقیقات کے بعد جب سچائیاں سامنے آگئیں تب یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایسے افراد کو ملک بدر کردیا جائے۔ اگرچہ کہ جرمنی میں تارک وطن کیلیے ہمیشہ رحمدلی کا جذبہ رہا ہے۔ چند افراد کو تو یہاں رہنے کی اجازت تک مل چکی ہے لیکن نئے چانسلر بہت جلد اس کیس کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں کررہے ہیں۔ کیوں کہ لاکھوں انسانوں کا سیلاب برداشت کرنا اب کسی بھی ملک کے بس کی بات نہیں رہی۔ ملکوں کی معیشت دن بہ دن کمزور ہوتی جارہی ہے۔ لہٰذا اسائیلم رول ختم کیا جارہا ہے۔ یہ بات نہیں کہ مغربی ملکوں کے دروازے غیر ملکیوں کے لیے بند ہوچکے ہیں ایسا بالکل نہیں ہے۔ وہ تو غیر ملکیوں کو بلانے کے خواہاں ہیں۔ لیکن غیر قانونی طور پر آنے والوں کے لیے ان کے پاس کوئی گنجائش نہیں ہے۔ سب ہی مغربی ملک اس پالیسی کے تحت تارکین وطن کو واپس بھیج رہے ہیں۔ دلی صدمہ ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ فلائٹس تارکین وطن کو لیکر جب اڑتی ہیں لاکھوں روپیوں کا نقصان، رسوائی، ندامت۔
غرض ان حالات میں تبدیلی آنے کی بظاہر کوئی امید نظر نہیں آتی۔ ادھر سیاسی پارٹیوں کے مطالبات کا خیال رکھنا بھی حکومت پر فرض ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں کچھ ایسی پارٹیاں بھی سیاست میں قدم جماچکی ہیں جو ابھی اقتدار حاصل کرنے تک تو نہیں پہنچ سکیں۔ لیکن ظاہر ہے سیاسی پالیسیوں میں تبدیلی لانے کا حق انہیں حاصل ہے۔ ان کی تائید میں کچھ عوامی حلقے بھی اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ان تمام کا مطالبہ ہے کہ تارکین وطن کو جلد سے جلد ان کے ملک واپس بھیج دیا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ ان میں سے ایک پارٹی کی لیڈر ہٹلر کی بہت ہی قریبی رشتے داروں میں سے ہے۔ ہٹلر بھی تارکین وطن کا سخت دشمن تھا اور یہ انہیں کی پالیسی اپنا رہی ہیں۔ جبکہ جرمنی میں اس وقت ہٹلر مخالف افراد بہت زیادہ ہیں۔ غرض تیرہ برس قبل جبکہ ملک شام میں خانہ جنگی شروع ہوئی تھی اس وقت جرمنی پہلا ملک تھا جس نے شام کے مہاجرین کو اپنے ملک میں بلانے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت غیر ملکیوں کے خلاف کسی نے آواز نہیں اٹھائی۔ بلکہ عوام بھی حکومت کی تائید میں کھڑی ہوگئی۔ دیکھا گیا کہ سفید فام لوگ صبح ہی سے اسٹیشنوں پر موجود تھے۔ ان مہاجرین کی مدد کیلیے ضروریات زندگی کی بہت ساری چیزیں اٹھا لائے تھے۔ حالانکہ حکومت کی طرف سے ان کی ضرورتیں پوری کی جانے کا وعدہ تھا لیکن عوامی سطح پر بھی بہت ہی جوش و خروش دیکھا گیا۔ مگر وہی لوگ اب مہاجرین کے خلاف آوازیں اٹھارہے ہیں۔ اس کی وجہ اول تو مخالف پارٹیوں کا دبائو ہے۔ علاوہ اس کے جرمنی کے پرسکون ماحول میں کچھ ناخوشگوار حالات بھی جنم لینے لگے ہیں جس کو وقت سے پہلے ختم کرنے کے لیے حکومت متحرک ہوچکی ہے۔ جرمن قوم انتہائی پرسکون ماحول میں رہنے کی عادی ہے۔ وہ اونچی آواز میں بات تک نہیں کرتے۔ نچھلی پروازوں کی آوازیں برداشت نہیں کرسکتے۔ ایسے ہنگامی حالات میں رہنا ان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ غرض حالات حاضرہ کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ بہت تیزی سے حالات کا رخ بدلنے والاہے۔ دیار غیر اب عنقا ہوتا جارہا ہے۔ نوجوانوں میں اگر ترقی کرنے کی خواہش ہو تو وہ محنت اور لگن سے پڑھیں اور تعلیم مکمل کریں۔ تب انہیں اپنے ملک میں ہی نہیں دنیا میں کہیں بھی مواقع مل سکتے ہیں۔ اچھی ملازمتیں مل سکتی ہیں۔ اس سے بہتر اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہ سچ ہے کہ یہ اتنا آسان نہیں ہے لیکن غیر قانونی راستوں میں بھی انتہا سے زیادہ دقتیں ہیں۔ کوئی بھی راستہ اختیار کرنے سے پہلے یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ’’تعلیم ترقی کی جڑ ہے‘‘۔