دیانتدار آئی پی ایس عہدہ دار نورالحسن

   

سید جلیل ازہر
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ محبت ڈھونڈنے والوں کو نہیں بانٹنے والوں کو ملتی ہے۔ دور جدید میں دوسروں کے دُکھ درد کو محسوس کرتے ہوئے ان کے کام آنا ہی انسانیت کا دوسرا نام ہے۔ آج سماج میں بہت کم لوگ رہ گئے ہیں جو دوسروں کے شاندار مستقبل کی تمنا کے لئے جنون کی حد تک بے لوث انداز میں نسل نو کو اپنے اپنے خاندانوں کا نام روشن کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ تاریخ میں یا اخبارات میں ایسی کئی مثالیں سامنے آتی ہیں لیکن دو دن قبل ایسے ہی جذباتی اعلیٰ عہدیدار سے راقم الحروف کو انٹرویو کا موقع دستیاب ہوا۔ وہ ایسے کہ ریاست مہاراشٹرا کے تعلقہ دھرماآباد جو ضلع ناندیڑ کا ایک اہم تعلقہ ہے جہاں 2017 ء ڈسمبر کے اواخر میں ایک فرض شناس انتہائی ایماندار پولیس عہدیدار مسٹر نورالحسن IPS کی بحیثیت ASP تعیناتی عمل میں آئی۔ نورالحسن کی دھرماآباد پوسٹنگ سے قبل یہاں ریت مافیا کافی سرگرم تھا، کروڑہا روپیوں کی ریتی پڑوسی ریاستوں کو اسمگل ہوتی رہی لیکن جس دن سے نورالحسن نے اپنے عہدہ کا جائزہ حاصل کیا ریت مافیا کے پیروں سے زمین کھسکنے لگی۔ انتہائی کم وقت میں اُنھوں نے بڑے پیمانے پر دھاوے کرتے ہوئے کوئی پچاس کروڑ روپئے مالیتی ریت ضبط کی۔ ان کی ایمانداری اور دیانتداری کا انعام ہے کہ لوگ دھرماآباد کو نورالحسن کے نام سے جاننے لگے۔ مختصر سے وقت میں شہرت نے ان کے قدموں میں سر رکھا، عظمت نے ان کی پیشانی کو بوسہ دیئے۔ موصوف رات دن نئی نسل کے شاندار مستقبل کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ نسل نو سے ان کی اٹوٹ وابستگی ہی میرے انٹرویو کا سبب بنی۔ موصوف سیاست کی ویب سائیٹ پر روزنامہ سیاست کی تعلیمی، فلاحی، سماجی خدمات کا مشاہدہ کرنے کے بعد مدیر اعلیٰ روزنامہ سیاست جناب زاہد علی خان صاحب کے کارناموں سے کافی متاثر ہوکر انھیں فون کیا اور خود کے اپنے خیالات سے انھیں واقف کرواتے ہوئے کسی نامہ نگار کو انٹرویو کے لئے دھرماآباد روانہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ جناب زاہد علی خاں صاحب نے فوری فون کرتے ہوئے راقم کو ہدایت دی کہ دھرماآباد جائیں اور نورالحسن IPS کا انٹرویو لیں۔ میں نے دھرماآباد پہونچ کر نورالحسن ASP سے ملاقات کی اور بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا۔ موصوف نے سب سے پہلے نئی نسل کے طلباء و طالبات کو یہ مشورہ دیا کہ تعلیمی میدان میں اپنی قابلیت کے جوہر دکھانے کے لئے غریبی رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ ہمیں کچھ بننے کے لئے جنون کی حد تک محنت و مشقت کرنے کی ضرورت ہے۔

اخبار کے ذریعہ میں نوجوانوں کو اپنی زندگی کا کڑوا سچ بتاتا چلوں تاکہ تعلیمی شوق رکھنے والے نوجوانوں کے ضمیر جاگ اُٹھیں۔ میں (نورالحسن) نے ایک اٹنڈر یعنی (چپراسی) کے گھر میں آنکھ کھولی۔ والد نے اپنی معمولی سی کمائی میں ابتدائی تعلیم اپنے علاقہ میں ہی ہررائے پور پیلی بھیت ضلع اترپردیش میں دلوائی۔ دسویں جماعت تک میں نے ہندی میں تعلیم حاصل کی۔ بعدازاں انٹرمیڈیٹ کی تکمیل کے بعد میرے والد نے اپنے وطن عزیز پر ایک ایکر اراضی جو ہماری زندگی کا سرمایہ تھی اس کو چالیس ہزار روپئے میں فروخت کرتے ہوئے مجھے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں انجینئرنگ میں داخلہ دلوایا جہاں میں نے سنجیدہ دوستوں کی ایک ٹیم تشکیل دیتے ہوئے انگلش زبان پر عبور حاصل کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ ماں باپ کی مالی حالت ہر قدم پر اس بات کا احساس دلایا کرتی تھی کہ مجھے کچھ بھی ہوجائے اپنے والدین کے خوابوں کو پورا کرنا ہے۔ میں کچھ لڑکوں کو ٹیوشن دینے لگا تھا اور جس سے میرے اخراجات بہ آسانی اپنے خرچ کے لئے نکل جاتے تھے۔ انجینئرنگ کی تعلیم مکمل ہوتے ہی ایک پرائیوٹ کمپنی میں ملازمت مل گئی لیکن اپنی جستجو کو میں نے جاری رکھا اور سائنسداں کے عہدہ تک رسائی انتہائی کم وقت میں کرلی جبکہ میرا نصب العین بچپن سے تھا کہ یونیفارم میں بڑی طاقت ہے اس لئے ملازمت کو جاری رکھتے ہوئے میں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوالیا اور 2014 ء کے بیاچ میں IPS کے لئے منتخب ہوگیا جو میرا دیرینہ خواب تھا اور اصل تڑپ یہ تھی کہ عام طور پر خواتین اپنے شوہر کی کمائی گھر آتے ہی کپڑے اور زیورات کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں لیکن میں نے جب سے شعور کی منزلوں میں قدم رکھا میری امی ابو سے یہی کہتیں کہ مجھے تمہاری کمائی کا ایک پیسہ بھی نہیں چاہئے۔ یہ پیسہ صرف بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے پر خرچ کردیں گے۔ آگے چل کر میرا زیور بنیں گے جبکہ میری امی کی تعلیم زیادہ نہیں تھی لیکن ان کی ممتا ان کے چہرہ پر ہمیشہ ہی ایک چیز محسوس کرتا تھا کہ ان کے چہرہ کی جھریاں بیٹوں کے درخشاں مستقبل کے لئے اٹھکھیلیاں لے رہی ہے۔ میں جانتا تھا کہ علم کے پاس چل کر خود جانا پڑتا ہے وہ خود بخود چل کے آپ کے پاس نہیں آتا۔ اس لئے کہ علم وہ شجر ہے جو دل میں اُگتا ہے اور زبان پر پھل دیتا ہے۔ اس لئے نیک نیتی سے کی ہوئی محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی بلکہ کامیابی خود آگے بڑھ کر قدم چومتی ہے۔ آج ہم تین بھائیوں کو میرے والدین نے جو تعلیم دی ہے وہ سن لیں کہ میں آج میرے والدین کی کری محنت کے سبب IPS بن گیا اور مجھ سے چھوٹے بھائی MBBS ایم ڈی ہیں اور تیسرا بھائی بہت جلد IAS ہوگا۔ نورالحسن انتہائی جذباتی ہوگئے۔ میری بھی آنکھیں حصار توڑ کر اشک باہر نکالنے کی کوشش کررہی تھیں میں نے اپنے آپ پر قابو پالیا اور نورالحسن کو ان کے والدین سے بے پناہ تڑپ اور محبت اور ان کے جذبہ کی ستائش کے لئے میں لفظوں کی بندش نہیں کرپارہا تھا کیوں کہ نورالحسن نے کہاکہ میری امی نے وقت کے ساتھ ساتھ کبھی بھی اپنی خواہشات پر توجہ نہیں دی۔ صرف ہمیں تعلیم دی۔ جلیل صاحب آپ ایسے وقت مجھ سے انٹرویو لے رہے ہیں جب میں بہت جلد اپنی امی کے لئے اپنے خون پسینے کی کمائی ہوئی رقم سے طلائی زیورات لے کر امی کو تحفہ میں دینے کے لئے جارہا ہوں۔ میں نے دھرماآباد میں پوسٹنگ ہونے کے بعد اپنی امی کو دھرمآباد لایا بلکہ پولیس اسٹیشن لاکر یہ بتایا کہ آپ کے لخت جگر کی یہ کرسی ہے۔ میری ملازمت کو دیکھتے ہوئے امی کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ وہ اس بات کو لے کر بے انتہا خوشی و مسرت کا اظہار کررہی تھیں کہ میرا بیٹا اعلیٰ افسر بن گیا۔ کون ماں نہیں چاہے گی کہ اس کا بیٹا اپنے گھر اپنے گاؤں اپنے علاقہ کا نام روشن کرے۔ ہمیں ان تکالیف کا احساس ہے اس لئے اب ہم نے بھی ایک مشن کا آغاز کیا ہے کہ ملک کے ہر حصہ بالخصوص دیہاتی علاقوں سے بھی بلالحاظ مذہب و ملت طلباء و طالبات مایوسی کے اندھیرے سے باہر آئیں اور یہ طے کرلیں کہ ہم بھی IPS ہو یا IAS بن کر رہیں گے۔ اس ضمن میں میرے بیاچ کے ساتھ ساتھ سینئر عہدیداروں نے مل کر ایک یو ٹیوب چیانل کا آغاز کیا ہے جس سے طلباء و طالبات کو اس کورس کے لئے کافی مدد فراہم ہوگی۔ مفت میں بالخصوصہ وہ پردہ پوش خواتین جو IPS ہو یا IAS کی خواہش دل میں لئے کچھ کر نہیں پاتی ان کی خاطر بڑے پیمانہ پر ہم نے ایک تجربہ شروع کیا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اس کے ثمرآور نتائج برآمد ہوں گے۔ خواہشمند طلباء و طالبات کو یو ٹیوب کے اس چیانل پر چلے جانے سے تمام تفصیلات سے آگہی ہوجائے گی اور وہ اپنی محنت اور سچی لگن سے منزل مقصود کو پہونچ جائیں گے۔ ہم ساتھیوں کا ایک ہی نصب العین ہے کہ ہندوستان کے کونہ کونہ میں بھی طلباء برادری کو مایوسی کے اندھیرے سے باہر لاتے ہوئے ان کو ترغیب دی جائے کہ وہ ٹھان لیں تو IPS اور IAS بن سکتے ہیں۔ والدین پر بھی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیمی میدان کی طرف راغب کریں کیوں کہ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں وہ لوگ جن کو ان کے ماں باپ ادب نہیں سکھاتے ایک دن زمانہ ان کو سبق ضرور سکھاتا ہے۔ نورالحسن نے نوجوان نسل کو مشورہ دیا کہ تم کبھی کسی معاملہ میں مایوس نہ ہوں۔ اگر تمہارا نصیب سورہا ہے تو یہ دیکھ کر کبھی مایوس ہوکر کہیں تم مت سوجانا بلکہ جاگتے رہنا اس لئے تمہارا جاگتے رہنا ہی ایک دن تمہارے نصیب کو جگادے گا۔ انھوں نے نوجوانوں کو یو ٹیوب کے اس چیانل سے استفادہ کرنے کی خواہش کی جس میں کئی آئی اے ایس، آئی پی ایس عہدیدار شامل ہوتے ہوئے ملک کے ہر علاقہ میں طلباء و طالبات کو IAS/IPS بنانے کی خواہش لئے بڑی کوشش میں لگے ہیں۔
www.youtube.com/</freecademy
freepreparationfor IAS & IPS
by IAS / IPS officers
انھوں نے واضح انداز میں کہاکہ انسان کو کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ جہد مسلسل اور جنون کی حد تک منزل مقصود کو پہونچنے کے لئے اپنے ارادوں کو مضبوط رکھیں ۔