دیانتدار تاجرین و صنعت کاروں میں خوف کیوں ؟

   

روش کمار
ملک میں پچھلے دس برسوں سے نہ صرف اپوزیشن قائدین ، ناراض عناصر ، سماجی جہدکاروں اور دیانتدار صحافیوں و دانشوروں میں خوف پیدا کیا جارہا ہے بلکہ تاجرین و صنعتکاروں میں بھی خوف کی لہر پیدا کی گئی ہے جو صنعت کار یا تاجر حکومت کی پالیسیوں پر ذرا سی بھی تنقید کرتا ہے ، مخالفت کا اشارہ دیتا ہے تو سمجھئے کہ اس کی شامت آگئی ہے اس کا گھیراہ تنگ کرنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ اس ضمن میں کئی اہم اپوزیشن قائدین بشمول قائد اپوزیشن راہول گاندھی نے متعدد مرتبہ حکومت کی اس معاندانہ روش کے بارے میں عوام اور خاص طور پر تاجرین و صنعتکاروں کو خبردار کیا ہے ۔ راہول گاندھی نے ایک مضمون تحریر کیا ہے ہندوستان کے تجارتی و صنعتی دنیا میں چھائی ہوئی خاموشی اور ڈر کو اس مضمون کے ذریعہ پھر سے چھیڑ دیا ہے ۔ راہول نے اپنے مضمون میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی مثال پیش کی ہے نام لئے بغیر ان ہی طاقتو ںکو ایسٹ انڈیا کی قطار میں رکھ دیا جن کا نام وہ انتخابی مہم کی تقاریر میں لیتے رہتے ہیں مگر ان کے سامنے راہول گاندھی صنعتی و تجارتی دنیا میں ایک نئے طبقہ، ترقی یافتہ طبقہ کی پہچان کرتے ہیں جو ڈر کی وجہ سے اپنا منہ کھول نہیں پارہا ہے کہ کب اس کی کمپنی یا اس کے سیکٹر پر ایسٹ انڈیا کمپنی کا قبضہ ہوجائے گا وہ اس بات سے ڈر اور خوف میں مبتلا رہتا ہے ۔ سہما سہما رہتا ہے ۔ کیا راہول گاندھی اس ایک مضمون کے ذریعہ اپنی مخالف کارپوریٹ شبیہ کو دور کرنا چاہتے ہیں ۔؟
کانگریس کے قائدین کی بھی یہی رائے ہے لیکن مضمون پڑھنے سے ایک اور بات نظر آتی ہے کہ جن دو کمپنی گروپوں کو نشانہ بنانے سے ان کی شبیہ کارپوریٹ دشمن کے طور پر بنائی جارہی ہے انہیں تو ایسٹ انڈیا کمپنی کی قطار میں راہول گاندھی نے تو کھڑا کردیا ہے ہوسکتا ہے کہ راہول گاندھی اپنی مخالف کارپوریٹ شبیہ سے فکر مند ہوں مگر وہ ان کے سامنے بے آواز ہوچکے بزنسمین کی بھی پہچان کرتے ہیں جس کے پاس پیسہ ہے تجارت کرنے کا ہنر ہے مگر جس کی کوئی اوقات نہیں اتنی بھی نہیں کہ غلط کام کی مخالفت ہی کرسکے ۔ ہم راہول گاندھی کے مضمون کی بات کررہے ہیں ان کا یہ مضمون ملک کے 12 اخبارات میں شائع ہوا ہے ۔ راہول اس مضمون میں اجارہ داری ، ایک حق اور دولت پر کنٹرول کا امکان بھی بتارہے ہیں ۔ انہوں نے ٹوئٹر پر اس مضمون کے بارے میں اپنی رائے اور واضح کی ہے ان کا کہنا ہے کہ اپنا ہندوستان چن لیجئے ایک ایسا ہندوستان جس میں تمام کیلئے اصول و قواعد اور قوانین برابر ہوں یا ایک ایسا ہندوستان جس میں دو چار لوگوں کا ہی کنٹرول ہو ۔ ایک ایسا ہندوستان جس میں مسابقت سے کوئی آگے بڑھے یا ایک ایسا ہندوستان جو کنکشن سے آگے بڑھے ایک ایسا ہندوستان جو نئے نئے تجربات سے آگے بڑھے یا ایک ایسا ہندوستان جو دھمکیوں سے آگے بڑھے ایک ایسا ہندوستان جس میں بہت سے لوگ امیر ہوں یا ایک ایسا ہندوستان جس میں دولت مٹھی بھر لوگوں کے ہاتھ میں ہو ۔ راہول کہتے ہیں کہ اس میں سے اپنا ہندوستان چن لیجئے ۔ راہول گاندھی لکھتے ہیں کہ ان کا یہ مضمون بزنس کیلئے ایک نیا سودا ہے اور اس سودے کا کوئی امکان نہیں کیونکہ یہی ہمارے ملک کا مستقبل ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب وزیراعظم نریندر مودی جھارکھنڈ میں روٹی لوٹ لے جائیں گے ۔ بیٹی لوٹ لے جائیں گے ، مائی چھین لے جائیں گے قسم کی سوچ و فکر کو آگے بڑھارہے ہیں اس طرح کی نفرتی بیانات کے ذریعہ وزیراعظم سیاست کو اہم سلگتے مسائل بالخصوص معاشی مسئلہ سے دور لے جارہے ہیں اس وقت راہول گاندھی ہندوستان کی معاشی حالت کی ایک بڑی بیماری پر اپنی رائے لکھ کر معاشی مسائل کو بحث کے دائرہ میں لانے کی کوشش کررہے ہیں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ روٹی لوٹ کر کون لے جارہا ہے ، مائی لوٹ کر کون لے جارہا ہے ؟ انڈین ایکسپریس ، دینک جاگرن ، لوک سپتا مرہٹی ، ماتر بھومی ، نیشنل ہیرالڈ کا اردو اخبار قومی آواز ، نیا تندی ، پنجاب کا جگ بانی ، آندھرا جیوتی ، اسماپرتی دن اور پرجاوانی ،زبان کے حساب سے دیکھیں تو انگریزی ، ہندی ، مرہٹی ، پنجابی ، بنگالی ، اسامیا ، اردو ، تلگو ، کنڑا ، ملیالم اور ٹمل یعنی راہول گاندھی نے اپنے اس مضمون کو ملک کے کئی کونوں میں پہنچانے کی کوشش کی ہے ۔
تاجرین و صنعت کاروں کو لیکر راہول گاندھی انتخابی مہم کے دوران اظہار خیال کرتے ہی رہے ہیں اور سبھی جانتے ہیں کہ وہ پہلے لیڈر ہیں جو امبانی اور اڈانی کا نام لیکر لگاتار بولتے ہیں ۔ جبکہ ان کی ہی پارٹی کے کئی نیتا ان دو صنعت کاروں کا نام تک نہیں لے سکتے ۔ راہول گاندھی بولتے رہتے ہیں ۔ گودی میڈیا کے بہت سارے چیانل دو تین صنعت کاروں کے ہیں تو ظاہر ہیکہ ان چیانلوں پر راہول گاندھی کے بیانات کو کیسے اور کتنا دکھایا جاتا ہے۔ آپ اندازہ لگاسکتے ہیں ۔12 اخبارات میں لکھ کر میڈیا پر کنٹرول کرچکے گودی چیانلوں کو راہول گاندھی نے چکمہ دیا ہے ان کے مضمون کو پڑھا جانا چاہئے ۔ اس میں وہ اپنی بات کو واضح انداز میں تفصیل سے رکھتے ہیں اور اچھی طرح رکھتے ہیں۔ آپ کو قائد اپوزیشن کی سوچ میں جھانکنے کا موقع ملے گا ساتھ ہی صنعتوں اور صنعت کاروں کے تئیں حکومت کی پالیسیوں و منصوبوں کو بھی سمجھنے کا موقع ملے گا اور امکانات کو بھی سمجھنے کا موقع میسر ہوگا اپنے اس مضمون میں راہول گاندھی ہندوستان کی صنعتی دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک خط کھینچ دیتے ہیں ۔ لکیر کے ایک طرف میاچ کرنے والی کمپنیاں ہیں جو حکومت سے قوانین اور اصول و قواعد تبدیل کرکے کئی شعبوں پر قبضہ کرتی جارہی ہے ان کمپنیوں کو راہول ایک اجارہ داری قائم کرنے والی کمپنیاں کہتے ہیں ۔ ’’میچ فکسنگ کرنے والی کمپنیاں ‘‘ مضمون میں راہول امبانی، اڈانی کا نام نہیں لیتے مگر ان کی تقاریر کی بنیاد پر اندازہ مل جاتا ہے کہ وہ کس کی بات کررہے ہیں لیکن لائن کی دوسری طرف کی کمپنیوں کے نام راہول گاندھی لیتے ہیں ۔ ان کے مطابق یہ وہ کمپنیاں ہیں ۔ جنہوں نے اصول و ضوابط کی پابندی کی ہے بازار میں جو مظاہرہ کیا ہے جدوجہد کی ہے اُتار چڑھاو دیکھے ہیں اور اپنی جگہ بنائی ہے ۔ تائنور ، انموبی ، مانپور ، زوماٹو ، فریکٹل انالائٹکس ، اراکوکافی ، ٹریڈنس ، اماگی ، آئی لای فوڈس ، فون پے ، موگلکس ، بجاج ، زیروڈھا ، آکسی زو ، جس پے ، انڈنگو ، ٹائٹسن ، ایونڈس ، سپلا ، ایل این ٹی ، ہلدی رام ، ایشین پینٹ ، ایچ ڈی ایف سی گروپ ، بجاج فینانس اور مہندرا جیسی کمپنیوں کا راہول اپنے مضمون میں نام لیتے ہیں یہ وہ کمپنیاں ہیں جن کے بارے میں راہول گاندھی کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے نئے نئے تجربات کئے ، قوانین اور اصول و ضوابط کی پابندی کی اپنے کاروبار کئے ۔ یہ وہ کمپنیاں ہیں جو کبھی اپنے شعبہ پر قبضہ کرنے کی کوشش نہیں کرتی بلکہ مسابقت کے ذریعہ ٹکی ہوئی ہیں۔ یہ حکومت کے دم پر نہیں اپنی کوششوں اور پیداوار کو بہتر بناتے رہنے کی وجہ سے جگہ بناتی ہیں ۔ راہول گاندھی ان کمپنیوں کا نام لیکر کہتے ہیں کہ بھارت میں کئی دیانتدار و بااعتماد کاروباری ہیں لیکن آج یہ سب خاموش ہیں اور ہر چیز سہنے کیلئے مجبور ہیں ۔ وہ پیوش بنسل اور فقیر چند کوہلی کی مثال دیتے ہیں کہ ان لوگوں نے اپنی کمپنی کو کہاں سے کہاں پہنچادیا ۔ حکومت کو قبضہ میں لیکر نہیں بلکہ مارکٹ میں مسابقت سے ، ٹی سی ایس 1968 ء کی کمپنی ہے ، لینس کارٹ 2010 کی کمپنی ہے ، ایک اسٹارٹ اپ ہے ایک وراثت کو آگے بڑھانے والی کمپنی ہے یعنی بہت پرانی کمپنی TCS ہے ۔ راہول گاندھی تاجرین و صنعت کاروں سے سوال کرتے ہیں کہ میں جانتا ہوں کہ ہندوستان کے سرفہرست اور بااثر کاروباری شخصیتیں اجارہ داری قائم کرنے کی چکر میں رہنے والے صنعت کاروں و تاجرین سے ڈرتے ہیں کیا آپ ان میں سے ایک ہیں جو فون پر بات کرنے سے ڈرتے ہیں ؟ کیا آپ آئسکر، سی بی آئی اور ای ڈی کے دھاوؤں کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں کہ وہ آپ کو اپنا کاروبار فروخت کرنے کیلئے مجبور کریں گے ؟ کیا آپ کو ڈر ہیکہ جب آپ کو سب سے زیادہ ضرورت ہو تب وہ آپ کو پائی پائی کیلئے ترساد دیں گے ؟ یا وہ آپ کو پھنسانے کیلئے اچانک اصول بدل دیں گے ۔ راہول گاندھی کہتے ہیں کہ ایسی اجارہ داری قائم کرنے کی خواہاں کمپنیوں سے عام بزنس مین مسابقت نہیں کرسکتا ۔ اصل میں اس کا مقابلہ کبھی کمپنی سے نہیں ہوتا بلکہ اس کمپنی کے پیچھے کھڑی حکومت سے ہوجاتا ہے دھاوے کرنے والی ایجنسیوں سے ہوجاتا ہے ۔ ان ایجنسیوں سے مقابلہ کرنا آسان نہیں ہے جو یہاں تک کنٹرول کرنے لگی ہیں کہ ہندوستانی کیا پڑھتے ہیں ، کیا دیکھتے ہیں ، کیا سوچتے ہیں ، راہول گاندھی یہ سب لکھتے ہیں ۔ آگے کہتے ہیں کہ آج کامیابی بازار میں کارکردگی سے طئے نہیں ہوتی بلکہ حکومت سے تعلقات اور قربت سے طئے ہوتی ہے ۔ آپ کے دلوں میں ڈر ہے لیکن اُمید بھی قائم ہے ۔ کہتے ہیں کہ ہندوستان کے بزنس مین دکاندار اور صنعتکار ڈرانے والی صورتحال کو برداشت کیوں کررہے ہیں ؟ مہاتما گاندھی اکثر قطار کے آخر میں کھڑے آدمی کی بات کرتے تھے ۔ راہول گاندھی اس کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مجھے اس کا احساس ہوا کہ میں نے گاندھی جی کے الفاظ کے اصل راز کو نہیں سمجھا جب گاندھی جی قطار کی بات کرتے ہیں تو بس وہ ایک مثال پیش کررہے ہیں سچ تو یہ ہیکہ ہمارے سماج میں بہت سی قطاریں ہیں ، بیوپار کی جس قطار میں آپ کھڑے ہیں اس میں آپ ہی محروم ہیں آپ ہی کمزور ہیں اس لئے میری سیاست کا ہدف اب آپ کو آپ کا وہ حق دلانا ہے جس سے آپ کو محروم کیا گیا ہے ۔