دینی مدارس فرقہ پرستوں کی آنکھوں کے کانٹے، تحفظ کیلئے جدوجہدضروری

,

   

ہمارے وجود کو ختم کرنے کی سازش ، مدارس کا وجود ملک کے مفاد میں، تحفظ مدارس کانفرنس میں مولانا ارشد مدنی کا خطاب

نئی دہلی : جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے دہلی میں آج تحفظ مدارس کانفرنس منعقد کی گئی جس میں یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کی جانب سے اترپردیش میں مدارس کا سروے کرنے کے فیصلے پر غور و خوص کیا گیا اور مستقبل کے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اجلاس میں کچھ روز قبل آسام میں مدارس کے خلاف کی گئی کارروائیوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔جمعیت علمائے ہند کی جانب سے دہلی میں منعقدہ ’مدارس کی حفاظت‘ اجلاس میں کہا گیا کہ یوپی حکومت کا سروے برے عزائم پر مبنی ہے اور اس سلسلہ میں یوگی حکومت کی نیت پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ جمعیت کی دہلی میں منعقدہ ’‘ کانفرنس میں اتر پردیش کے دو سو مدرسوں کی موجودگی کا مشاہدہ کیا گیا۔ جمعیۃ علماء ہند نے منگل کو کہا کہ وہ اسلامی مدارس کا ہر قیمت پر دفاع کریں گے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ یوپی حکومت کا مدارس کا آئندہ سروے مدارس کے تعلیمی نظام کو بدنام کرنے کی ایک بدنیتی پر مبنی کوشش ہے۔امیر الہند مولانا سید ارشد مدنی صدر جمعیۃ علماء ہند نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دینی مدارس ، فرقہ پرستوں کی آنکھوں کے کانٹے ہیں، اس لیے ہمیں ان کی نیتوں کو سمجھنا چاہے۔ انھوں نے کہا کہ نظام کو درست کرنے کی بات اپنی جگہ ہے، لیکن ہمیں اپنے مدارس کی بقاو تحفظ کے لیے کمربستہ ہونا ہو گا ، ہم نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ امن وامان کے ساتھ ہمارے دینی اداروں کو چلنے دیا جائے ،لیکن فرقہ پرست ہمارے وجود کو ختم کرنے کی تمنا رکھتے ہیں، جسے ہم ہرگز نہیں ہو نے دیں گے۔انھوں نے کہا کہ مدارس اسلامیہ کا وجود ملک کی مخالفت کے لیے نہیں بلکہ ملک کے لیے ہے، اس کا ڈیرھ سو سالہ کردار گوا ہ ہے کہ یہاں سے ہمیشہ ملک کی تعمیر کا کام ہو ا ہے’’اجلاس کے بعد مولانا محمود اسعد مدنی نے بتایا کہ کانفرنس میں باہمی مشاورت کے بعد تین نکاتی تجویز بھی منظور کی گئی۔۱) مدراس میں اندرونی نظام کے اعتبار سے جو قانونی خامیاں ہیں ، ان کو جلد ازجلد درست کرایا جائے(۲) جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے ایک ہیلپ لائن بنائی جائے اور ٹیم تیار کی جائے جو کاغذات کی درستگی میں اہل مدارس کا تعاون کریں۳) این آئی او ایس یا کسی اور شکل میں عصری تعلیم کا سلسلہ مدارس میں شروع کیاجائے۔اس دوراندہلی میں جمعیتہ علمائے ہند کے صدر مولانا محمود مدنی نے اترپردیش میں مدارس کے سروے کے خلاف احتجاج میں ایک اہم اجلاس کیا اور اجلاس میٹنگ میں حکومت سے ملاقات کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس سلسلے میں ایک اسٹیئرنگ کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے۔ اجلاس میں اترپردیش کے بڑے مدارس سے وابستہ لوگوں نے شرکت کی، یہ تمام لوگ غیر سرکاری مدد سے مدرسے چلارہے ہیں۔ حکومتی اعلان کے بعد محمود مدنی سے ملاقات کے بعد مزید حکمت عملی تیارکر لی گئی ہے۔ ریاست میں مدارس کے تعلیمی نظام کے بارے میں سروے کرنے کے لئے ضلع مجسٹریٹوں کو اتر پردیش حکومت کی ہدایت کے خلاف منعقدہ اجلاس کے بعد، محمود مدنی نے کہاکہ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مدارس ملک کی ملکیت ہیں اور مدارس ضروری ہیں۔ مدارس سے نکلنے والے لوگوں نے ملک کی خدمت کی ہے اس لیے مدارس کا کردار بہت اہم ہے۔آج کے دور میں مدارس کو غلط نظروں سے دیکھا جا رہا ہے، مدارس کا کام باہمی فاصلے ختم کرنا ہے۔ ہم ملک کے لیے ہیں، تھے اور رہیں گے۔ مدارس کے معاملے میں جبر نہیں ہونا چاہیے۔ جمعتہ علماء ہند کے صدر محمود مدنی نے کہا کہ ہم اس فیصلے کی مخالفت کریں گے۔ یہ نیچے سے اوپر تک جائے گا، جہاں تک ممکن ہو، جس سطح پر یہ ممکن ہے۔ چاہے مجھے سپریم کورٹ ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ انہوں نے کہا کہ اجلاس میں فی الحال کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ کمیٹی فیصلہ کرے گی کہ اس معاملے پر آگے کیا کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم متعلقہ حکام کو ایک درخواست بھیجیں گے جس میں ان سے ملاقات کا وقت مانگا جائے گا۔ کوئی کام غلط طریقے سے نہ کیا جائے خواہ وہ نیکی ہی کیوں نہ ہو۔ کچھ بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔ جس طرح سے اس کی تصویر کشی کی جا رہی ہے وہ غلط ہے۔ مدنی نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ یوگی حکومت ہم سے بات کرے۔ انہوں نے خدشہ ظاہرکیا کہ کہیں آسام کی طرح بلڈوزر سے مدارس کو منہدم نہ کر دیا جائے۔ دوسری جانب اقلیتوں کے وزیر مملکت دانش آزاد انصاری نے کہا کہ یہ سروے مسلم نوجوانوں کی ترقی کیلئے ضروری ہے ۔