دیوالی اور اردو کے مسلمان شعرا

   

فیروز بخت احمد
چانسلر مانو
تاریخ شاہد ہے کہ مسلمان طبقہ نے دیوالی کے تہوار کو تعریف کی نظر سے دیکھا ہے کیونکہ یہ اندھیرے کو بھگا کر روشنی کو جگہ دیتی ہے۔ یہ تہوار نہ صرف باہری دنیا کے اندھیرے کو دور کرتا ہے بلکہ دلوں کی تاریکی کو بھی دور کرتا ہے۔ نظیر اکبر آبادی کو ہی لیجئے۔ کتنی خوبصورت نظم کہی ہے انہوں نے دیوالی پہ ؎
ہر ایک مکاں میں جلا پھر دیا دیوالی کا
ہر ایک طرف کو اجالا ہوا دیوالی کا
سبھی کے دل میں سماں بھا گیا دیوالی کا
سبھی کے دل کو مزا خوش لگا دیوالی کا
عجب بہار کا ہے دن بنا دیوالی کا
جہاں میں یارو عجب طرح کا ہے یہ تہوار
کسی نے نقد لیا اور کوئی کرے ہے ادھار
کھلونے کھیلوں تباشوں کا گرم ہے بازار
کھلونے والوں کی ان سے زیادہ بن آئی
شگون پہلے کرو تم زرا دیوالی کا
یہ ہار جیت کا چرچا پڑا دیوالی کا
نظیر آپ بھی ہے جواریا‘ دیوالی کا
نظیر اکبر آبادی
دور جدیدکے شعرا نے بھی دیوالی کی طرف توجہ فرمائی ہے۔ چنانچہ علامہ سیماب اکبر آبادی نے ایک منظم بہ عنوان ’’دیوالی‘‘ کہی ہے جو ان کے مجموعہ کلام ’’سازو آہنگ‘‘ میں شامل ہے انہوں نے اپنی نظم دیوالی کے چراغوں کو فلسفہ رنگ سے روشن کیا ہے اصل اجالا وہ ہے جو انسان کے دل کو روشن کر دے بہر حال سیماب نے بظاہر اجالے کی بجائے باطنی اجالے پر زور دیا ہے ؎
کیا رنگ و نور ایوان ہستی
عشرت فروز زہن و نظر ہے
ہر در پہ شمعیں ہر سر میں مستی گھر گھر
چراغاں گھر گھر اجالا لیکن بہ فلک ظاہر
پرستی تہذیب باطن ممکن نہیں ہے پیکر ہو
تیرا کتنا ہی روشن پہنچے گا دل تک کیوں کر اجالا
حامہ اللہ افسر میرٹھی نے بھی نظم بہ عنوان دیوالی تخلیق کی ہے اس نظم کا لب و لہجہ ہندی سے ملتا جلتا ہے۔ یہ نظم نہایت خوبصورت ہے۔ ملاحظہ فرمائیے ؎
تارے ہیں آکاش تلے
جگ مگ جگ مگ دیپ جلے
آئی پھر دیوالی آئی
گھر گھر سکھ کی جوت جلائی
چہروں پر خوشحالی چھائی
تارے ہیں آکاش تلے
جگ مگ جگ مگ دیپ جلے
انکلا بن کے سکھ کا تارا
ہو گیا سارا اجگ اجایارا
ہے یہ منظر کتنا پیارا
تارے ہیں آکاش تلے
جگ مگ جگ مگ دیپ جلے
پروفیسر آل احمد سرور نے بھی دیوالی کے موضوع پر طبع آزمائی کی ہے۔ جو ان کے مجموعہ کلام ’’زوق و جنون‘‘ میں موجود ہے۔ ان کی نظم کا لب و لہجہ فلسفایانہ ہے۔ انہوں نے اپنی نظم میں یہ بتایا ہے کہ اس موقع پر چاروں طرف خوشی کا رنگ چھایا ہوا ہے اور شاد مانی کی روشنی بکھری ہوئی ہے۔ اگر چہ آج کے دور میں انسان افسردہ ہے۔ وہ رنج و الم کے شکنجے میں گرفتار ہے۔ غلام ربانی تاباں نے بھی ایک نظم دیوالی کے عنوان سے کہی ہے۔ اس نظم کے تار و پود میں انہوں نے سیاست کا رنگ بھر دیا ہے۔ اس نظم کا تعلق سیاست اور جنگ کے ماحول سے ہے۔ تاباں صاحب نے جنگ کے خلاف آواز اٹھائی ہے کہ جنگ کس طرح نبی نوع پر تباہی لاتی ہے۔ انسان کو جنگ کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ وہ امن چاہتا ہے۔ اس امن کی آرزو میں وہ ہزاروں برس سے تڑپ رہا ہے۔ لیکن اس کو امن و آزادی اس وقت تک حاصل نہ ہوگی جب تک ہو خود نظام چمن نہیں بدلے گا۔ اس لئے انسان کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ چناں تاباں کی نظم ملاحظہ فرمائیے ؎
وقار روح کے تاروں کو کیوں چھوا تم نے
تمہاری نظم ’’دیوالی‘‘ بہت ہے اچھی ہے
مگر چہ رات کی گردن میں دیپ مالائیں
سیاہیوں میں اجالے کے بدنما دھبے
غریب وحشی کو جیسے جزام ہو جائے
یہ ٹمٹماتے دیئے صبح کا بدل تو نہیں
میں سوچتا ہوں کہ اس چین و برما میں
کسی محاذ پر کتنے دیئے جلے ہوں گے
غرـض کے اردو زبان کے مسلمان شعرا نے دیوالی کے تہوار سے اپنی دلچسپی کا گہرا اظہار کیا ہے۔ ان کی دیوالی کی نظمیں اس بات کا بعین ثبوت ہے کہ ان کو اپنے ملک اور اس کی روایات سے محبت اور عقیدت ہے۔