ذات پات پر بھاگوت کے دعوے نئی بوتل میں پرانی شراب

   

رام پنیانی
آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت عجیب و غریب باتیں کرتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ جو کہتے ہیں کرتے نہیں اور جو کرتے ہیں وہ کہتے نہیں یعنی ان کے قول و فعل میں تضاد پایا جاتا ہے ۔ حال ہی میں سنت رائے داس تقاریب کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بڑی دانشورانہ باتیں کی ۔ ذات پات اور سماجی امتیاز پر بھی بہت کچھ بولا لیکن ہندوستان میں دلتوں کی جو حالت زار ہے ان کے ساتھ جس طرح کا امتیاز برتا جاتا ہے حد تو یہ ہیکہ انہیں انسان ہی نہیں سمجھا جاتا ۔ دلتوں کی حالت زار میں بہتری لانے انہیں حقیقت میں انسان کا درجہ دینے کیلئے صرف بڑی بڑی باتیں کافی نہیں بلکہ سنجیدگی کے ساتھ ٹھوس اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے ۔ آر ایس ایس سرسنچالک جن کے نام کے ساتھ اب تو ڈاکٹر بھی جڑگیا ہے یعنی ڈاکٹر موہن بھاگوت نے سنت رائے داس تقاریب کے موقع پر خدا اور ذات پات کے بارے میں کچھ یوں اظہار خیال کیا ’’ میں ( خدا ) تمام مخلوقات میں ہوں نام یا رنگ کچھ بھی ہو سب میں ایک جیسی صلاحیت و قابلیت پائی جاتی ہے ۔ سب کے تئیں ایک جیسا احترام پایا جاتا ہے ، یہ مخلوق سب کے سب میرے اپنے ہیں ‘‘کوئی بھی ادنی اعلی نہیں ، مذہبی صحیفوں کی بنیاد پر پنڈت جو کچھ کہتے ہیں وہ جھوٹ ہے ، اعلی ادنی ، کمتر اور برتر ذاتوں کے تصور میں الجھ کر ہم اپنا راستہ بھٹک چکے ہیں ۔ اس فریب کو دور کرنا ہوگا ۔ آر ایس ایس سرسنچالک نے اگرچہ بڑی بڑی باتیں کی لیکن ملک میں دلتوں کی حالت ان کی قلعی کھول کر رکھدیتی ہے ۔
واضح رہے کہ اترپردیش میں کمزور طبقات کے رہنما سوامی پرساد موریہ نے تلسی داس کی رام چرت مانس پر نظرثانی کیلئے زور دیا ہے جس میں دلتوں اور خواتین سے متعلق تضحیک و توہین آمیز زبان استعمال کی گئی ہے ۔ دوسری طرف قدامت پسند شنکر اچاریہ اور دیگر نے اس کی یہ کہتے ہوئے شدت کے ساتھ مخالفت کی کہ ذات پات خود خدا نے بنائی ہے اور بھاگوت کو اس کیلئے برہمنوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہئے ۔ خود کو برہمن مذہبی رہنماوں کی ناراضگی سے بچانے کی خاطر وضاحت کرتے ہوئے موہن بھاگوت کو کہنا پڑا کہ پنڈتوں سے ان کا مطلب برہمن نہیں بلکہ اسکالرس ہیں اگر دیکھا جائے تو یقیناً یہ ہندو قوم پرستوں کی طرف سے خاص طور پر دلتوں کو بہلانے پھسلانے کا تازہ ترین بیان ہے۔ آر ایس ایس پوری طرح مخمصے کا شکار ہے ایک طرف اسے ذات پات اور جنس سے متعلق موقف برقرار رکھنا ہے اور دوسری طرف اپنے ایجنڈہ کی تکمیل کیلئے ان طبقات ( کمزور طبقات ) کے دل جیتنے ہیں ( آر ایس ایس ، بی جے پی اور دوسری بے شمار تنظیموں کی سرپرست تنظیم ہے جو ہندو راشٹر قائم کرنے کی راہ پر گامزن ہیں ۔ اسے ذات پات کے مسئلہ پر بڑے محتاط انداز میں آگے بڑھنا ہے ۔ آر ایس ایس کے بارے میں ہمیشہ سے یہی کہا جاتا رہا ہے کہ اس پر اعلی ذات بالخصوص برہمنوں کا قبصہ ہے یہی وجہ ہیکہ آر ایس ایس قائدین دلتوں کے بارے میں باتیں تو بڑی کرتے ہیں لیکن کسی دلت کو ان لوگوں نے آر ایس ایس کا سربراہ نہیں بنایا ۔ آر ایس ایس اور اس کے سربراہ کچھ اور دعوے کرتے ہیں ۔ آر ایس ایس کے قیام کی تحریک دینے اور اس کے قیام کا باعث بننے والے عوامل میں سے ایک زمیندار برہمنوں کی بیڑیوں کو توڑنے کیلئے مظلوموں و کمزوروں کی جدوجہد تھی ایک غیر برہمن تحریک جن کا مقصد زمینداروں اور برہمنوں کے اتحاد کی مخالفت تھی ۔ آر ایس ایس کو بنانے کیلئے کچھ اشرفیہ بھی جمع ہوئے جو اس کے قیام کا بڑا عنصر تھا ۔ آر ایس ایس کے بارے میں اس کی ابتدائی تفہیم اس کے اپنے دوسرے سر سنگھ چالک مادھو سرشیوگولوالکر ( ایم ایس گولواکر ) نے پیش کی تھی انہوں نے نہ صرف منوسمرتی کی تعریف و ستائش کی بلکہ ماضی کو ایک غیرمعمولی اور سنہری دور کے طور پر پیش کیا ساتھ ہی اس ورنا ذات پات کے نظام کو برقرار رکھا کیونکہ اس کتاب کے قوانین میں ’’ ہم یا ہماری قومیت ‘‘ کی تعریف کی گئی ۔ ان قوانین کے مطابق یہ مقدس کتاب ہے اور اس میں ذات پات کا جو نظام ہے وہ نظام سائنسی اصولوں پر مبنی ہے ۔ آپ آرگنائزر کے بارے میں جانتے ہیں یہ آر ایس ایس کا غیر سرکاری ترجمان ہے اس میں بھی ذات پات سے متعلق منوسمرتی کے اصولوں کی ستائش کی گئی ہے ۔ آر گنائزر کی 1952 کی اشاعت کے صفحہ نمبر 7 میں کچھ یوں کہا گیا ’’ اگر ایک ترقی یافتہ مہذب معاشرہ یہ سمجھتا ہے کہ موجودہ اختلافات سائنسی و سماجی ڈھانچہ یا ساخت کی وجہ سے ہیں اور وہ سماج کے مختلف اعضا کی نشاندہی کرتے ہیں بعد میں آر ایس ایس کے ایک اور بڑے نظریہ ساز دین دیال اپادھیائے جو بی جے پی کے صدر بھی تھے Integral Humanism کا نظریہ پیش کیا ، سنگھ کے کئی اہم اور بااثر قائدین نے اسی نظریہ کے بارے میں کہا کہ یہی ان کی سیاست کی رہنمائی کرتا ہے اس بارے میں مزید یہ کہا گیا کہ Integral Humanism کے مطابق ہماری چار ذاتوں یا ورنوں کے تصور میں انہیں ویرات پرش کے مختلف اعضا یا Oryans کے طور پر سمجھا جاتا ہے یہ اعضا نہ صرف ایک دوسرے کی تکمیل میں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انفرادیت اور اتحاد میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اس سے ( ذات پات کی اس درجہ بندی سے ) انفرادیت ، مفادات اور شناخت کی مکمل نشاندہی ہوتی ہے اگر اس خیال اور تصور کو زندہ نہ رکھا جائے تو ذات پات تنازعات پیدا کرسکتے ہیں لیکن پھر یہ ایک تحریف ہے ( ڈی اپادھیائے انٹگرل ہیو منرم نئی دہلی بھارتیہ جن سنگھ 1965 صفحہ 43 ) مذکورہ بیانات ایسے بیانات تھے جنہوں نے ملک کی سیاست میں ہندووں کے مختلف طبقات یا ذاتوں میں آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کی سیاست کی بنیاد کو مستحکم کیا اور جب یہ استحکام قائم ہوا تو آر ایس ایس دوسرے مرحلہ میں یہ پروپگنڈہ کرنے لگی کہ ذات پات میں کوئی امتیاز نہیں ہے تمام ذاتیں برابر ہیں اور اس ضمن میں سنگھ کے رہنماؤں نے تین بڑی کتابیں شائع کروائیں ۔ آر ایس ایس کے نظریہ سازوں کی جانب سے تحریر کردہ ان کتابوں میں یہ دلائل دیئے گئے کہ قرون وسطی کے زمانے میں مسلم حکمرانوں کے مظالم یا اسلامی مظالم کے نتیجہ میں اچھوت اور ادنی ذاتیں وجود میں آئیں ۔ آر ایس ایس کے نظریہ سازوں نے جو کتابیں تحریر کی ہیں ان میں ’’ ہندو چار مکار جاتی ‘’ ہندو کھاتک جاتی اور ہندو والمیکی جاتی شامل ہیں ۔ ان کتابوں میں سنگھ کے رہنماؤں نے دعوی کیا کہ یہ ذاتیں بیرونی حملہ آوروں کے مظالم کے نتیجہ میں وجود میں آئیں ۔ ہندو مذہب میں یہ پہلے موجود نہیں تھیں ایک اور آر ایس ایس لیڈر بھیا جوشی کے مطابق ہندووں کی مذہبی کتابوں میں شوور کبھی اچھوت نہیں تھے بلکہ قرون وسطی کے دور میں اسلامی مظالم کے نتیجہ میں اچھوت اور دلت وجود میں آئے ۔ بھیا جی جوشی اس بارے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں چنورو شیا کتھریوں کے ہندو وقار کو پامال کرنے کیلئے عرب مسلم حکمرانوں اور گائے کا گوشت کھانے والے غیر ملکی حملہ آوروں نے انہیں گائے کو ہلاک کرنے ان کی کھال اُتارنے اور گائے کے باقیات کو وایران مقامات پر پھینکنے جیسے مکروہ کام پر مجبور کیا اسی طرح ہندو قیدیوں کو اس قسم کے کام دے کر بیرونی حملہ آوروں نے ایک طرح سے سزا دی اور اس طرح ان لوگوں نے چارماکر ما ( جلد سے نمٹنے ) والی ذات بتائی اور اب پنڈتوں پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ان لوگوں کی وجہ سے ہندو مذہب میں ذات پات کا مسئلہ پیدا ہوا ( آر ایس ایس کے نظریہ ساز نے ہندووں میں ذات پات کیلئے مسلم حکمرانوں بیرونی حملہ آوروں اور اسلامی ظلم کو ذمہ دار قرار دیا ہے جبکہ موجودہ حالات میں کوئی مسلم حکمران ہے نہ کوئی بیرونی حملہ آور ہے اور نہ ہی ان پر کوئی ظلم و جبر ہے اس کے باوجود اعلی ذات کے ہندو ،دلتوں اور ادنی ذات کے لوگوں کو جانور سے بدتر کیوں سمجھتے ہیں۔ اپنی بدنامی کا ٹوکرا دوسروں کے سر ڈالنا اسان ہے خود کو سدھارنا مشکل ہے ۔ آر ایس ایس قائدین اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام تو مساوات کا درس دیتا ہے یہ ایسا مذہب ہے جن میں امیر غریب ، گورے کا لے شاہ و گدا سب کے سب ایک ہی صف میں کھڑے رہتے ہیں ۔ اسلام میں ذات پات ، حسب نسب ، خاندان دولت و شہرت اور عہدہ کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ تقوی و پرہیزگاری کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے ) حقیقت میں دیکھا جائے تو ہندو مذہب میں ذات پات کی بنیادیں بہت پرانی ہیں اور چھوت چھات ذات پات کے ساتھ ہندوستان آئے آریائی باشندوں نے خود کو دوسروں سے برتر سمجھا اور غیر آریائی باشندوں کو کٹرشناورنیا ( گہری جلد ) اناسا ( بنا ناک والے ) قرار دیا اور انہیں غیر انسانی ( امونیشا ) تصور کیا گیا ۔ ( رگ وید x:22.9 ) رگ وید اور منوسمرتی میں ایسی باتیں درج ہیں جن میں بتایا گیا کہ ادنی ذات والوں کا اعلی ذات والوں کے قریب آنا بھی ممنوع ہے اور انہیں گاوں کے باہر رکھا جاتا تھا غرض ہندو مذہب میں ذات پات کا نظام بہت قدیم ہے ۔