روش کمار
مودی حکومت جس نے ذات پات پر مبنی مردم شماری کی شدت سے مخالفت کی تھی اب ذات پات پر مبنی مردم شماری کروانے پر راضی ہوگئی ہے۔ پہلگام واقعہ پر تمام طرح کی اعلیٰ سطحی اجلاس کے حوالے سے گودی میڈیا منظرکشی میں یعنی سما باندھنے میں لگا تھا کہ کوئی بڑا فیصلہ آنے والا ہے۔ پاکستان کو جواب دینے کیلئے بڑے فیصلہ کی تیاری ہورہی ہے اور فیصلہ آیا وہ جو پوری طرح اپوزیشن کا موضوع ہے جس کی بار بار اپوزیشن نے مانگ کی تھی۔ کیا آپ کو یاد ہیکہ مہاراشٹرا اسمبلی انتخابات میں وزیراعظم نریندر مودی نے ایک ہیں تو سیو ہیں کا نعرہ کیوں دیا تھا؟ اس وقت تو ان سے قربت رکھنے والوں اور بی جے پی کے حامیوں کی جانب سے یہی کہا گیا کہ کانگریس کے ذات پات پر مبنی مردم شماری کے موضوع کا بی جے پی نے توڑ تلاش کرلیا ہے۔ یہ مودی کا ماسٹر اسٹروک ہے۔ اب وہی بی جے پی اور وہی مودی حکومت ذات پات پر مبنی مردم شماری کا فیصلہ اپنا بتارہی ہے۔ کیا اس کے حامی اسے بھی ماسٹر اسٹروک بتا پائیں گے؟ وزیراعظم مودی نے ایک جلسہ عام سے خطاب میں کچھ اس طرح کہا ’’آپ کو اس خطرناک سازش سے خبردار اور چوکس رہنا ہے آپ کو یاد رکھنا ہیکہ ایک ہیں تو سیو ہیں ایک ہیں تو سیو ہیں، انہوں نے عوام سے یہ بھی نعرہ لگانے لگایا‘‘۔ ایک ہیں تو سیو ہیں کیا کہا گیا تھا اس کے بارے میں یہی کہ ذات پات پر مبنی مردم شماری کا یہ جواب ہے ٹھیک ہے کہ بی جے پی نے کبھی پوری طرح اس موضوع یا مسئلہ کی مخالفت نہیں کی لیکن اسے ذات پات پر مبنی مردم شماری کرانے کا پورا موقع ملا۔ اس نے تب بھی نہیں کروایا تو اب کیوں یہ فیصلہ لیا گیا کیا یہ مانا جائے کہ پہلگام حملہ کو لیکر جو ماحول بنایا گیا ہے بنایا جارہا تھا حکومت اس سے اب توجہ ہٹا کر ملک کو ذات پات پر مبنی مردم شماری کے موضوع یا مسئلہ پر لے جانا چاہتی ہے۔ تحفظات کی حد 50 فیصد سے کتنی بڑھے گی؟ ان سب سوالات اور مباحث میں الجھانا چاہتی ہے کیونکہ ذات پات پر مبنی مردم شماری کا مسئلہ اس بات کیلئے بھی ہے اور اس کا یہ بڑا مقصد ہیکہ تحفظات کی حد 50 فیصد سے زیادہ ہونی چاہئے۔ اپوزیشن کیلئے یہ تاریخی لمحات ہیں مگر فیصلہ بی جے پی کا ہے۔ کیا بی جے پی ذات پات پر مبنی مردم شماری کی جھجھک سے باہر آ گئی ہے۔ اب وہ تحفظات کی حد 50 فیصد کرانے کی تائید و حمایت کرے گی؟ کئی سارے سوال سامنے آرہے ہیں۔ اس وقت مودی حکومت نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟ پہلگام حملہ کے تناظر میں اس کی تشریح کیسے کی جائے۔ حکومت کو بھی پتہ ہیکہ اپوزیشن اس فیصلہ کا خیرمقدم کرے گی کیونکہ یہ اس کا اٹھایا ہوا مسئلہ ہے۔ بی جے پی کے حامی انتظار کررہے تھے کہ وزیراعظم نریندر مودی کوئی ایکش لیں گے ان میں پھر سے مہا ناٹک کی شبیہہ بھری جائے گی اور وزیراعظم نریندر مودی فیصلہ کیا لیتے ہیں وہ فیصلہ جس کا تعلق راہول گاندھی سے ہے۔ راہول گاندھی پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر ملک کے کسی بھی کونے میں اپنا خطاب ذات پات پر مبنی مردم شماری کو لیکر ہی کرتے ہیں۔ بیرونی ملکوں کے دوروں پر بھی ان کا خطاب ذات پات پر مبنی مردم شماری سے بھرا ہوتا ہے۔ براون یونیورسٹی کے پروگرام میں بھی راہول گاندھی نے اس کی بات کی۔ ٹھیک ہے تیجسوی یادو نے بھی اس مسئلہ کو اٹھایا۔ نتیش کمار کے ساتھ اتحاد میں رہتے ہوئے تھوڑے عرصہ میں ہی ذات پات پر مبنی مردم شماری کرنے والی ریاست بہار بنی۔ اس وقت تیجسوی دن رات اسے اچھی طرح اٹھاتے تھے، دباؤ بناتے تھے لیکن راہول گاندھی اس مسئلہ کو قومی و بین الاقوامی سطح پر لے گئے۔ کرناٹک میں کانگریس کی حکومت نے ذات پات پر مبنی مردم شماری کروائی ہے۔ تلنگانہ میں بھی ذات پات پر مبنی مردم شماری ہوچکی ہے۔ نومبر 2024ء میں شروع یہوئی اس مردم شماری میں 50 دن کا وقت لگا۔ ساڑھے تین کروڑ سے زیادہ لوگوں کا سروے ہوا ہے۔ اس مردم شماری کے طریقہ کار پر سوال اٹھائے جارہے ہیں مگر اسے تلنگانہ حکومت کی کابینہ نے منظوری دے دی ہے۔ راہول گاندھی بار بار کہتے ہیں کہ ذات پات پر مبنی مردم شماری ہندوستان کا ایکسرے ہے او بی سی کتنے ہیں باقی ذات پات اور مذاہب کے ماننے والے لوگ کتنے ہیں جب یہ سب اعداد و شمار سامنے آئیں گے تب ہی ملک سب کی حصہ داری دے کر آگے بڑھ پائے گا۔ جس مسئلہ کا چہرہ راہول گاندھی بن چکے ہیں آخر مودی حکومت نے اس پر پہلگام دہشت گردانہ حملہ کے درمیان کیوں مہر لگائی ہے؟ پارلیمنٹ میں خطاب کے دوران راہول گاندھی کا کہنا تھا ’’سیاسی مساوات تباہ ہوجائے گی یہ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے الفاظ ہیں اور آج یہ بات سب کے سامنے ہے کہ سیاسی مساوات جو تھی وہ ختم ہوچکی ہے۔ ہندوستان کے سارے اداروں پر قبضہ کرلیا گیا ہے، سماجی مساوات باقی نہیں رہی، معاشی اقتصادی مساوات بھی نہیں رہی۔ اس لئے ہمارا اگلا قدم ذات پات پر مبنی مردم شماری ہوگا۔ ہم ملک کو دکھانا چاہتے ہیں کہ آپ نے کن لوگوں کا اور کہاں کہاں انگوٹھا کاٹا ہے۔ ہم دلتوں کو قبائلوں کو اور پسماندہ طبقات کو کسانوں کو مزدوروں کو دکھانا چاہتے ہیں کہ آپ نے کس کس کا انگوٹھا کاٹا ہے۔ اس لئے جو میں نے وعدہ کیا تھا، اسی ایوان میں یہاں ہم ذات پات پر مبنی مردم شماری لاگو کریں گے اور اس کے بعد ہندوستان میں ایک نئے طریقہ کی ترقی ہوگی۔ ایک نئے طریقہ کی سیاست ہوگی اور جو میں نے پہلے کہا تھا اور جو آپ کو اچھا نہیں لگتا ہے 50 فیصد تحفظات کی حد یا اس دیوار کو ہم یہاں توڑیں گے 50 فیصد تحفظات کی دیوار اور ذات پات پر مبنی مردم شماری ہم یہاں کرواکر دکھائیں گے آپ کو جو کرنا ہے کرلو۔‘‘
ایسا کہاں ہوتا ہے کہ اپوزیشن لیڈر کے طور پر راہول گاندھی دعویٰ کررہے ہیں کہ ذات پات پر مبنی مردم شماری ہوکر رہے گی۔ اپوزیشن میں رہ کر گیارنٹی راہول گاندھی دے رہے ہیں اور اس کے دس ماہ بعد مودی حکومت ذات پات پر مبنی مردم شماری کروانے کا فیصلہ لیتی ہے۔ رکن راجیہ سبھا منوج جھا کا بھی ایک بیان یاد آتا ہے انہوں نے کہا تھا کہ یہی حکومت ذات پات پر مبنی مردم شماری کروائے گی گزشتہ دس برسوں میں پہلی بار ہے جب اپوزیشن لیڈر حکومت کو فیصلہ کیلئے مجبور کررہے ہیں۔ مرکزی وزیر اشونی ویشنو پریس کانفرنس کرنے آئے تو انہوں نے کہا کہ کانگریس نے ہمیشہ ذات پات پر مبنی مردم شماری کی مخالفت کی ہے۔ آپ سبھی جانتے ہیں کہ راہول گاندھی بار بار ذات پات پر مبنی مردم شماری کے سوال کو اٹھاتے رہے ہیں۔ بہار میں ذات پات پر مبنی مردم شماری اس حکومت نے کرائی اس میں نتیش کمار کی پارٹی کے علاوہ آر جے ڈی اور کانگریس بھی شامل تھی۔ 2023ء میں ذات پات پر مبنی مردم شماری کے بعد تحفظات کی حد 50 فیصد سے زیادہ کی گئی۔ بہار حکومت نے تحفظات کی حد بڑھا کر 65 فیصد کردی۔ اس کے علاوہ 10 فیصد معاشی طور پر کمزور لوگوں کیلئے تحفظات دیئے گئے ہیں۔ کانگریس کی کرناٹک حکومت نے ذات پات پر مبنی مردم شماری کا کام پورا کرلیا ہے تو اب اشونی ویشنو کے کہنے کا کیا مطلب ہے کہ کانگریس اس طرح کی مردم شماری کی ہمیشہ سے مخالف رہی ہے وہ یہ بات کیسے کہہ سکتے ہیں۔ اشونی ویشنو کے مطابق کانگریس کی حکومتوں نے ہمیشہ ذات پات پر مبنی مردم شماری کی مخالفت کی آزادی کے بعد کی تمام مردم شماری میں ذات پات پر مبنی مردم شماری نہیں کی گئی۔ 1947ء کے بعد سے اگر دیکھا جائے تو سال 2010ء میں سابق وزیراعظم آنجہانی ڈاکٹر منموہن سنگھ جی نے لوک سبھا میں تیقن دیا تھا کہ ذات پات پر مبنی مردم شماری پر کابینہ میں غور کیا جائے تب ایک وزارتی گروپ بھی قائم کیا گیا جس میں اکثر سیاسی جماعتوں نے ذات پات پر مبنی مردم شماری کی تائید کی۔ اس کے باوجود کانگریس حکومت نے ذات پات پر مبنی مردم شماری کے بجائے ایک سروے کرانا ہی ضروری سمجھا۔ یہ حیرت کی بات ہیکہ کانگریس کے ایجنڈہ کو مودی حکومت قبول کررہی ہے اور کانگریس پر ہی تہمت سے ہی پریس کانفرنس شروع کی جارہی ہے کہ کانگریس نے ذات پات پر مبنی مردم شماری کی مخالفت کی ہے خود بھی بتارہے ہیں کہ دباؤ میں منموہن سنگھ حکومت نے کرایا تو آپ نے ان اعدادوشمار کو جاری کیوں نہیں کیا۔ 2011ء کی مردم شماری میں سماجی و معاشی سروے ہوا تھا اس کا ہی ڈیٹا آپ نے جاری کیوں نہیں کیا وہی جاری کردیتے تو ذات پات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ یہاں تک نہیں پہنچتا۔ کانگریس کے ترجمان اعلیٰ جئے رام رمیش نے ملک ارجن کھرگے کا ایک مکتوب ایکس پر پوسٹ کیا ہے یہ مکتوب 16 اپریل 2023ء کو لکھا گیا تھا وزیراعظم نریندر مودی کے نام جس میں ان سے کہا گیا تھا کہ ذات پات پر مبنی مردم شماری کروائے اس مکتوب میں یہ بھی لکھا تھا کہ 2011ء میں جو سماجی اقتصادی سروے ہوا تھا، اس کا ڈیٹا ابھی تک جاری نہیں کیا گیا۔ دو سال پہلے کا مکتوب ہے اور اس خط میں ملک ارجن کھرگے لکھ رہے ہیں کہ ہم مئی 2014ء سے مطالبہ کررہے ہیں کہ 2011ء کا ڈیٹا جاری کیجئے لیکن مودی حکومت نے ہمارے مطالبہ کو سنی ان سنی کردیا۔ آج تک وہ اعدادوشمار جاری نہیں کئے گئے۔ راہول گاندھی مسلسل اس مسئلہ کو اٹھا نہیں رہے ہیں بلکہ اسے گہرائی سے خود بھی سمجھنے کی کوشش کرتے جارہے ہیں۔ اپنے یوٹیوب چینل پر راہول گاندھی نے سماجی، سیاسی، مفکر و دانشور پروفیسر سکھ دیو تھوراٹ سے اس مسئلہ پر تفصیل سے بات کی ہے کہیں سے بھی آپ دیکھیں ذات پات پر مبنی مردم شماری کا چہرہ آپ کو راہول گاندھی ہی نظر آئیں گے۔ وزیراعظم نریندر مودی کا اس بارے میں کوئی ویڈیو ہے جس میں اس طرح سے ذات پر مبنی مردم شماری کے مثبت اور منفی پہلو کو لیکر غوروفکر کررہے ہیں۔ اظہارخیال کررہے ہیں اسے کرانے کو لیکر جگہ جگہ پر خطاب کررہے ہیں؟ مودی حکومت نے ستمبر 2021ء میں سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرکے کہا کہ سماجی اقتصادی ذات پات پر مبنی مردم شماری کروانا ممکن نہیں ہے یہ لمبا چوڑا کام ہے جو مشکل ہے۔ اس وقت مہاراشٹرا میں انڈیا اتحاد کی حکومت تھی اس نے اپیل دائر کرکے مانگ کی کہ جب مردم شماری ہو اس میں ہندوستان کے پسماندہ طبقات کی گنتی ہو۔