ذات پات کی بنیاد پر کیا مردم شماری ہوگی؟

   

روش کمار

ہندوستان کی سیاست کو ایک لفظ میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ سیاست کا ’’بھگوڑا نظام‘‘ یا ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرنے والا نظام جس کے تحت ہر سیاسی جماعت ، ہر سیاسی قائد نے بنیادی ، اہم و سلگتے مسائل سے متعلق جواب دینے سے راہ فرار اختیار کر رکھا ہے۔ کوئی فرقہ واریت کے خلاف لڑنے کی بجائے بھاگنے لگتا ہے۔ شہر میں رنگ و روغن کو ترقی بتاکر اس کے اپنے پوسٹرس چسپاں کرنے لگتا ہے تو کوئی بیروزگاری اور غریبی کے سوالوں سے فرار اختیار ہونے کیلئے فرقہ پرستی کو گلے لگانے لگتا ہے۔ سب بھاگ رہے ہیں لیکن بھاگتے بھاگتے آخر میں سب وہیں پہنچ گئے ہیں جہاں سے بھاگنا شروع کیا تھا۔ اس لئے کسی بھی سیاسی جماعت اور ان سیاسی جماعتوں کے کسی بھی رکن پارلیمنٹ نے او بی سی بل کی مخالفت نہیں کی۔ دستور کی 127 ویں ترمیم کے تحت اب ریاستوں کو بھی اپنے حساب سے او بی سی فہرست تیار کرنے کا حق حاصل ہوگیا ہے۔ ہریانہ میں جاٹ تو راجستھان میں مینا طبقہ اس طرح مہاراشٹرا میں مرہٹہ تحفظات کے سوالات پیدا ہوتے رہے ہیں۔
اتفاق رائے سے گودی میڈیا مشکل میں ہوگا جو آئے دن ذات پات کی مخالفت کے نام پر مذہبی منافرت پھیلاتا رہتا ہے، اسے بھی او بی سی بل کا مجبوراً خیرمقدم کرنا پڑ رہا ہوگا۔ لوک سبھا میں اس بل کے خلاف ایک ووٹ بھی نہیں ڈالا گیا۔ یعنی اس کی کسی نے مخالفت نہیں کی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک کا ایک بھی رکن پارلیمنٹ اسے ذات پات کا مسئلہ نہیں مانتا۔ ایک بھی سیاسی جماعت اسے ذات پات تسلیم نہیں کرتی۔ بے شک اس سوال پر غور کیا جاسکتا ہے کہ آخر جو گاڑی اندھی قوم پرستی سے آگے بڑھائی جارہی تھی، وہ گھوم کر ذات پات کے الگ الگ سوالات پر کیوں لوٹ آئی ہے۔ اگر حکومت چاہتی کہ لوگ بیروزگاری اور نوکری پر بات کریں تو وہ ان کے اعداد و شمار ضرور دیتی ناکہ چھپاتی، اس لئے کیوں ؟ اور کیسے ہندوستان کی سیاست مذہب اور شناخت کی سیاست چھوڑ کر او بی سی کے اطراف گھومنے لگی اور اس کی وجہ ذات پات میں نہیں بلکہ معاشی ناکامی میں پوشیدہ ہے۔
7 جولائی کو مرکزی کابینہ میں بڑے پیمانے پر ردوبدل ہوا۔ اس وقت بڑے فخریہ انداز میں گودی میڈیا کابینہ میں نمائندگی کے بارے میں چیخ چیخ کر بتا رہا تھا اور یہ کہہ رہا تھا کہ کچھ تاریخی واقعہ پیش آیا ہے۔ پہلی مرتبہ مرکزی کابینہ میں 27 او بی سی وزراء شامل کئے گئے ہیں جبکہ 12 دلتوں کو بھی وزارت میں شامل کیا گیا ہے۔ اس بارے میں پوسٹرس تیار کرکے شہر شہر گاؤں گاؤں میں چسپاں کئے گئے۔ ان پوسٹرس پر وزیراعظم نریندر مودی سے اظہار تشکر کیا گیا۔ جب او بی سی وزراء کی گنتی ہوسکتی ہے تو ملک میں کتنے او بی سی اور دلت ہیں ان کی گنتی کیوں نہیں ہوسکتی۔ جب سیاسی دکان چمکانے کیلئے دوسرے مذہب کے ماننے والوں کی آبادی بتائی جاسکتی ہے تو سیاست کیلئے ذات پات کی تعداد کیوں نہیں معلوم ہونی چاہئے۔ کیا یہ بات آپ نہیں جانتے کہ وزیر بنانے سے پہلے ذات پات دیکھی جاتی ہے تو پھر ان کی ذات کی تعداد کی صحیح گنتی کیوں نہیں ہونی چاہئے۔ جہاں یہ سال او بی سی بل منظور کیوں کیا گیا کیونکہ ایک عرصہ بعد ہیجان اور اندھی قوم پرستی کے بعد سیاست کے پرانے میدان کی تزئین نو کہی جارہی ہے جس کے افتتاح کرنے کیلئے مقابلہ آرائی کی جارہی ہے۔ او بی سی بل کے بہانے ہر سیاسی پارٹی خود کو او بی سی حامی ثابت کرنے لگی ہے۔ ظاہر ہے اس مقابلہ آرائی میں ذات پات کی گنتی کا سوال آنا ہی تھا جس سے بی جے پی اپنا دامن بچا رہی ہے۔ ذات پات کے شمار کو ذات پات کی عینک سے دیکھنے کی غلطی مت کریں۔ یہاں تک کہ اگر ذات پات کا کوئی شمار نہ ہو تب بھی ذات پات پایا جاتا ہے۔
اسے ذات پات قرار دینے والے بھی سیاست میں اپنی دعویداری گنتی یا اعداد و شمار کی بنیاد پر کرتے ہیں تو کیا یہ اچھا نہیں ہوگا کہ ان کے ذات والوں کی تعداد ٹھیک ٹھیک بتا دی جائے۔ ایسا نہیں تھا کہ ذات پات کی گنتی کی اُلجھنوں میں پھنسی بی جے پی او بی سی سیاست سے دُور ہوگئی تھی۔ سال 2015ء کے دوران بی جے پی میں پہلی مرتبہ او بی سی مورچہ بنایا گیا تھا۔ کسی بھی سیاسی جماعت میں اس طرح کا مورچہ ایسے وقت میں فیصلوں کو عظیم فیصلے بنانے کیلئے بتایا جاتا ہے۔ جاریہ سال ماہ جون سے سیاست کا چکر او بی سی کی سیاست اہم مقام حاصل کررہی ہے، لیکن آپ شاید یہ بات فراموش کرگئے ہیں کہ وزیراعظم نریندر مودی ضرورت پڑنے پر اپنی او بی سی پہچان کو سامنے رکھنے سے گریز نہیں کرتے یا فراموش نہیں کرتے۔ 2019ء کے عام انتخابات میں مایاوتی نے وزیراعظم کو نقلی او بی سی قرار دیا تھا۔ وزیراعظم اپنی ذات بھی بتائے رہتے ہیں۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ ذات پات کی سیاست نہیں کرتے۔ چلئے تب مایاوتی نے ان کی ذات کو لے کر کہہ دیا تھا کہ وہ نقلی او بی سی ہیں، اس ملک میں صرف فرضی خبر Fake News ہی نہیں ہوتی بلکہ اس ملک میں Fake OBC بھی ہوسکتا ہے اور Fake IAS و Fake IPS بھی ہوسکتا ہے۔ دھوکہ بازی اور دھوکہ بازوں سے متعلق خبروں کا مطالعہ کیجئے۔ ہر دوسرے دن کوئی فرضی آئی اے ایس لوگوں کو لوٹتے ہوئے پکڑا جانا ہے۔
بہرحال 2019ء میں تو مایاوتی نے کہہ دیا تھا لیکن اس بات پر کسی نے اُکسایا تھا کہ دہلی میں ہورڈنگ لگائے جائیں جس میں یہ بتایا جائے کہ کابینہ میں کتنے او بی سی وزیر ہیں۔ کون ہیں جو انہیں ذات پات کی سیاست میں گھسیٹ رہا ہے۔ 2019ء میں وزیراعظم ہاتھ جوڑ کر درخواست کررہے تھے کہ ذات پات کی سیاست میں مت کھینچو۔ 2021ء میں پارلیمنٹ میں ان کے ارکان پارلیمنٹ زور و شور سے او بی سی، او بی سی چیخ رہے ہیں۔ ہندوستان میں دو طرح کی عدم مساوات ہے۔ ایک عدم مساوات مالی ہے۔ ناقص مالی پالیسیوں کے باعث آج ملک میں 2% لوگ دولت مند ہیں اور مابقی 800 ملین (80 کروڑ غریب ہیں)۔ دوسری عدم مساوات یا فرق ذات پات کا ہے لیکن ذات پات کی عدم مساوات کا تعلق بھی معاشی عدم مساوات سے ہے کیونکہ ملک کے وسائل پر ابتداء سے ہی ان ذاتوں کا قبضہ رہا ہے جنہیں دوسروں پر برتری حاصل رہی جن کی تعداد ساری آبادی میں کم ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ 2015ء میں ذات پات پر مبنی مردم شماری سے انکار کرنے والی مودی حکومت یا بی جے پی 2021ء میں اس سوال کو ٹال پائے گی۔