ذکیہ جعفری کی قانونی جدوجہد اور نظامِ انصاف

   

پروفیسر اپوروانند
ذکیہ جعفری کو ملک میں کون نہیں جانتا۔ کانگریس کے سابق رکن راجیہ سبھا شہید احسان جعفری کی بیوہ جنہیں گجرات فسادات کے دوران گلبرگ سوسائٹی کے دوسرے 63 مکینوں کے ساتھ خون کے پیاسے ہندو ہجوم نے انتہائی بے دردی سے قتل کردیا تھا۔ جس وقت بلوائیوں نے مذہب کے نام پر انسانوں کو تقسیم کرنے والوں کی ایما پر گجرات کے مختلف مقامات پر درندگی کا سلسلہ شروع کیا اس درندگی کی زد میں گلبرگہ سوسائٹی کے مکینوں کو شرپسندوں کے حملوں اور مذہب کے نام پر قتل کرنے والے قاتلوں سے بچانے ریاستی حکومت کے تمام عہدیداروں گجرات پولیس کے سربراہ، احمد آباد بلدیہ کے میئر، قائد اپوزیشن حد تو یہ ہے کہ اُس وقت کے چیف منسٹر نریندر مودی کو بھی فون کال کیا۔ اگرچہ انہوں نے دوسروں بشمول اعلی عہدیداروں کے تیقنات پر بھروسہ کیا تاہم انہیں مایوسی کا ہی سامنا کرنا پڑا اور سب سے زیادہ مایوسی چیف منسٹر سے ہوئی۔ اس کا انکشاف احسان جعفری مرحوم کی پڑوسی روپا مودی نے کیا جنہوں نے جعفری صاحب کو چیف منسٹر کو فون کرتے دیکھا اور فون پر چیف منسٹر کا جواب سن کر انہوں نے بڑی بے بسی کے ساتھ فون رکھ دیا اس گفتگو کے بعد بھیڑ ان پر ٹوٹ پڑی اور ان کے ٹکڑے کردیئے۔ اس تاریخ سے ذکیہ جعفری کو احسان جعفری کی بیوہ کہا جانے لگا لیکن انہوں نے خود کو ایک بے چاری بیوہ کی طرح رکھنا گوارا نہیں کیا بلکہ ایک بہادر خاتون بہادر بیوی کی طرح اپنے خاوند اور دوسرے بے قصور انسانوں کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے قانونی لڑائی لڑنے کا فیصلہ کیا اور ایک نہیں دو نہیں بلکہ 22 برسوں تک اس لڑائی کو جاری رکھا اور پھر موت کی آغوش میں پہنچ گئی۔ شاید اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی انہیں اپنے ملک کے نظامِ عدالت نظامِ انصاف اور عدالتوں سے مایوسی ہوئی لیکن ان کی تعریف کرنی چاہئے کہ انہوںنے اپنی آخری سانس تک حکومتوں، حکمرانوں اور ناانصافی کرنے والوں کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا۔ جس وقت گجرات فسادات (مسلمانوںکا تقل عام) برپا کیا گیا جس وقت احسان جعفری اور گلبرگ سوسائٹی کے 60 سے زائدمکین شہید ہوئے تب ذکیہ جعفری کی عمر 63 سال تھی۔ شائد انہوں نے اس منظر کو آخری سانس تک نہیں بھلایا ہوگا جس میں ان کی آنکھوں کے سامنے ہی تشدد پرآمدہ، ہندوئوں نے ان کے خاوند کو قتل کردیا۔ وہ صرف احسان جعفری کا ہی قتل نہیں تھا بلکہ ہندوستانی تہذیب و روایتوں کا قتل تھا۔ انسانیت کا قتل تھا۔ واضح رہے کہ ذکیہ جعفری نے زندگی بھر ہمت نہیں ہاری اور اپنی عمر کے آخری 22 برس انصاف کے لیے جدوجہد میں صرف کردیئے۔ قدم قدم پر انہیں ہمارے ملک کے طاقتور سسٹم سے رکاوٹوں اور مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ذکیہ جعفری کے بارے میں ہم آپ کو یہ ضرور بتانا چاہیں گے کہ یکم فروری کی صبح انہوںنے احمد آباد میں واقع اپنی لخت جگر کے گھر میں آخری سانس لی۔ گھر میں تمام کام ختم کرنے کے بعد گھروالوں سے اچھی خاصی بات چیت کی۔ پھر انہوں نے کلیجہ میں کچھ تکلیف محسوس کی۔ ڈاکٹر کو طلب کیا گیا جس نے ساڑھے گیارہ بجے ان کی موت کا اعلان کیا۔ 86 سالہ ذکیہ جعفری یقینا بلند عزم و حوصلہ والی خاتون تھیں۔ ان کی موت یقینا طبعی موت کہی جائے گی۔ویسے بھی اکثر لوگ اپنے لیے اس موت کی تمنا اور خواہش کرتے ہیں جس میں انہیں کوئی اذیت کسی قسم کی تکلیف نہ ہو اور ان کے اپنے عزیزوں اور چاہنے والے کو بھی تکلیف سے دور رہیں۔ ذکیہ جعفری جیسی بہادر خاتون کی موت کی تفصیلات پڑھ کر راقم الحروف کو اپنی والدہ کی موت یاد آگئی۔ انہوں نے بھی اپنے آخری وقت میں کلیجہ میں درد کی شکایت کی اور پھر موت کی آغوش میں پہنچ گئی۔ اس بارے میں جان کر ہماری دوست نویدتیا کا کہنا تھا کہ ان کی ماں ایسے لوگوں کو نیک روح کہا کرتی تھیں۔ ذکیہ جعفری کی زندگی جینا کوئی معمولی بات نہیں۔ جب بچے بڑے ہوجاتے ہیں اپنی زندگیوں میں مگن ہوجاتے ہیں۔ اپنے کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں تو خاص طور پر ہندوستانی مائیں سکون و اطمینان کی سانس لیتی ہیں اور اپنے شوہروں کے ساتھ بغیر کسی پریشانی کے خوشحال زندگی گزارنے کا خواب دیکھتی ہیں لیکن ذکیہ جعفری کو زندگی کی وہ خوشی نصیب نہیں ہوئی۔ اپنے شوہر اور دیگر بے قصور انسانوں کے قاتلوں اور انہیں قتل و غارت گری پر اکسانے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے وہ درخواستیں تیار کرتے ہوئے اور عدالتوں کے چکر کاٹتے ہوئے گزاردیئے لیکن حکومتوں، سرکاری ایجنیوں اور عدالتوں نے ان کی درخواستوں کو مسترد کیا اور فسادات کے ذمہ داروں کو کلین چٹ دے دی۔ اس طرح مزاحمت کی آواز کو دبانے کی بھرپور کوشش کی گئیں۔ ہاں ۔۔۔! احمد آباد کی جس گلبرگ سوسائٹی کے ایک فلیٹ میں وہ اپنے شوہر بچوں اور دیگر عزیزوں کے ساتھ مقیم تھیں۔ اس سوسائٹی کو مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہندو ہجوم نے اپنے گھیرے میں لے لیا تھا۔ وہ بھیڑ اچانک جمع نہیں ہوئی تھی۔ اسے ایک منصوبہ بند سازش کے تحت جمع کیا گیا تھا جبکہ احسان جعفری بھی کوئی معمولی شخص نہیں تھے۔ راجیہ سبھا میں انہوں نے کانگریس کی نمائندگی کی تھی۔ ریاست گجرات کا ہر محکمہ انہیں جانتا تھا، پہچانتا تھا جس میں اس وقت کے چیف منسٹر بھی شامل ہیں۔ انہوں نے یہ سوچ کر چیف منسٹر سے لے کر پولیس کے اعلی عہدیداروں کو فون کیا تھا کہ وہ ریاست کے جانی پہچانی شخصیتوں میں شامل ہیں اور گلبرگ سوسائٹی میں ان کی موجودگی کے نتیجہ میں کوئی خون خرابہ نہیں ہوگا۔ یہی سوچ گلبرگ سوسائٹی کے مکینوں کی تھی۔ اسی لیے وہ ذکیہ جعفری کے فلیٹ میں جمع ہوئے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اسی وقت پولیس کمشنر نے خود وہاں پہنچ کر یہ اعلان کیا کہ مزید پولیس فورس آرہی ہے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ہجوم بڑھتا گیا اور پولیس کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔ احسان جعفری عہدیداروں اور لا اینڈ آرڈر کے ذمہ داروں کو مسلسل فون کرتے رہے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا ساری دنیا نے دیکھا۔ احسان جعفری نے ہجوم سے یہاں تک کہا کہ مجھے مارڈالو باقی سب کو چھوڑ دو۔ اس طرح وہ شہید کردیئے گئے۔ اس قتل و غارت گری اور تباہی و بربادی کے بعد یہ سمجھا گیا تھا وہ ڈر و خوف کے مارے خاموشی اختیار کریں گی لیکن انہوں نے اپنے شوہر اور دوسرے بے قصور انسانوں کے قتل کے خلاف نہ صرف آواز اٹھائی بلکہ قاتلوں اور حقیقی خاطیوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے قانونی لڑائی لڑنے کا فیصلہ کیا۔ وہ بھی جانتی تھی کہ یہ لڑائی آسان نہیں ہے۔ وہ ریاست گجرات کے سب سے بااثر اور طاقتور شخص کے خلاف کھڑی تھیں۔ ساتھ ہی ہندوئوں کی اکثریت کی نفرت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔ اگرچہ انصاف کی یہ لڑائی طوالت اختیار کرنے والی تھی لیکن ذکیہ جعفری نے اس راہ پر چلنے کا انتخاب کیا۔ ذکیہ جعفری نے ایک نہیں کئی بار یہ کہا تھا کہ ان کے شوہر کا قتل ایک بڑی سازش کا حصہ تھا۔ اس قتل کی سسٹم نے راہ ہموار کی تھی۔ ایک اور اہم بات یہ رہی کہ گودھرا ٹرین میں لگی آگ سے ہلاک ہونے والوں کی نعش مہولکین کے ورثاء کے حوالے نہیں کی گئی بلکہ وی ایچ پی کے حوالے کی گئیں تھیں اور جلوس نکالنے کی اجازت دی گئی اور مسلمانوں کو ان اموات کا ذمہ دار بھی قراردیا گیا اور مسلمانوں کے خلاف منظم طور پر تشدد برپا کیا گیا۔ ذکیہ جعفری کو یقین تھا کہ ان کے شوہر کا قتل ایک بڑی سازش کے تحت کیا گیا اور انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اس سازش کے پیچھے کارفرما اصل ذہن کے خلاف قانونی لڑائی لڑیں گی۔ انہوں نے 22 برسوں تک یہ لڑائی لڑی۔ وہ دہلی کی بڑی عدالت بھی پہنچی اس عدالت نے ان کے حوصلے اور انصاف کے تئیں ان کے عزم کی قدر کرنے ان کی مدد کرنے کی بجائے ان کی ناقدری کی اور ان کی درخواست کو ایک طرح سے پھینک دیا۔ ذکیہ جعفری کی موت پر ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ وہ ہندوستان کے نظام اور اس کی عدالتوں کے ذریعہ ٹھکرائی ہندوستانی خاتون تھیں۔وہ انصاف کی اس پیاس کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوئی جس طرح کربلا میں شہادت کے ساتھ پانی کے ہر قطرہ کی پیاس سے متعلق یاد وابستہ ہے ایسے ہی ہمیں انصاف کے لیے ذکیہ جعفری کی پیاس کو یاد رکھنا چاہئے۔