رائے بہادر دولت رائے و ہوراکچھ یادیں ۔ ماضی کے جھروکے

   

خواجہ رحیم الدین: نیویارک
قارئین کرام ! میں نے دانشوروں کی باتوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ آج اس پُر آشوب دور میں ہمارے ملک کو درپیش مسائل اور جاری اخلاقی اور سماجی سوجھ بوجھ کی وجہ سے ماضی کو بھلا رہے ہیں۔ یاد ماضی کا جب بھی ذکر ہوتو بے شمار خوشگوار یادیں رائے بہادر دولت رائے دہورا کو یاد کرنے پر تازہ ہو جاتی ہیں جب رائے بہادر دولت رائے کی دلچسپ محبت بھری باتیں یاد آتی ہیں تو آنکھیں نم ہو جاتی ہیں یہ ایک انمول ہیرا تھا جو بھگوان کو پیارا ہوگیا۔
میرے دوست رائے بہادر دولت رائے وہورا ایک بہترین تحریکی کارکن اور ایک بہترین انسان وہ ایک ایسا محترک انسان جس کو اس کی سخت بیماری بھی نہیں روک سکی اس کا عزم و ہمت جوان تھا وہ عمر کے اُس حصے میں تھا وہ بھگوان کو پیارا ہوگیا۔ دولت رائے کی یادیں ترو تازہ ہیں جو تقریباً 50 سال پر محیط ہیں۔ امیر اور تعلیمی گھرانے سے تعلق تھا لیکن غرور کوسوں دور تھا، دولت رائے کا بیٹا جتندر وہورا ایک بیٹی (ڈاکٹر) شکاگو (امریکہ) میں خوشگوار زندگی گذار رہے ہیں۔ دولت رائے میں شرافت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ آج کے اس پُر آشوب ماحول میں اس طرح کے صاف ستھرے دماغ کے اشخاص شائد ہی دستیاب ہوں۔ بزرگ ہوں یا چھوٹے عمر کے سب کا دوست بن جاتا تھا۔ ہر قوم کے بیمار کی مزاج پرسی کرنا اور کھانا بھی پہنچاتے تھے۔ ان کو دوستی کا ہنر آتا تھا وہ ہر کام میں سرگرم رہتے تھے۔ وہ ہمیشہ پر خلوص اور محبت کرنے والا ہی تھا۔ اس کے کردار کی روشنیاں دوستوں میں آج بھی قائم ہیں۔
وہ غیر مسلم اور میں مسلمان، واہ رے دوستی اگر یہ دوستی سب میں آجائے تو کتنا بہتر ہوگا۔ رائے بہادر دولت رائے کو چنو بھائی کہکر بھی مخاطب ہوتے تھے۔ دولت رائے اور میں ابتداء میں اردو ذریعہ تعلیم اپنائے تھے۔دولت رائے دولت سے بھرپور تھے وہ بی کام درجہ اول میں کامیاب کئے۔ اس وقت بی کام پڑھانے کے لئے بی کام ہی لکچر دستیاب تھے۔ ایم کام کوئی نہیں تھے۔ بدروکا کالج کے طالب علم تھے۔ وہ حیدرآباد سے شکاگو منتقل ہوگئے۔ میں نیویارک میں رہتا رائے بہادر شکاگو میں ملاقات ہوتی رہتی۔ جب وہ شدید بیمار تھے میں اپنی بھانجی کے ساتھ آخری وقت تک رہا۔ رائے بہادر دولت رائے کے بھائی لندن سے آ نہیں سکے کیونکہ ان کو ڈاکٹرس سفر سے منع کئے تھے۔ایک واقعہ بیان کردوں میں شدید بخار میں مبتلا تھا یہ پیارا دوست مجھے کورنٹی دواخانہ (کیورنٹی یونیورسٹی روڈ) لے گیا تمام دن دواؤں کے ساتھ میرے جسم کو ٹھنڈے کپڑے سے پوچتا رہا میرا بخار اترنے کے بعد اپنی فیٹ کار سے گھر نارائن گوڑہ چھوڑ دیا۔ دوست ہوتو ایسا دوست پیدا ہو۔دولت رائے وہورا اس دنیا میں نہیں لیکن اس کے ساتھ گذارے 50 سال اپنی بھرپور یادیں لئے ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گی۔ پھر میں کہوں گا بہرحال انسان تھا بھید بھاو نہیں تھا۔ مجھے نماز کو وہ اپنی فیٹ کار سے چھوڑتا اور وہ مندر چلا جاتا۔
غم غلط کرنے والا تکلیف برداشت کرتا اور ایک دوسرے کی مدد کرلیتا۔ ہندو اور مسلمان جب یہ لفظ کبھی زبان پر آجاتا تو غمگین ہو جاتا اور کہتا خواجہ بھائی اپنی زندگی میں یہ فرق محسوس نہ ہو طرز زندگی میں فرق نہ آئے۔ واہ وہ دور بھی کیا دور تھا۔ میرے ایک دوست اجیت کمار اور چند دوست بریانی کھانے شہران ہوٹل گئے۔ آنجہانی اجیت کمار آریہ سماج مندر، سلطان بازار کے معتمد تھے وہ گوشت سے پرہیز کرتے تھے لیکن انہوں نے ہم کو کہا بھائیوں آپ اپنی بریانی گوشت کی ضرور کھاؤ میں آپ کی میز پر ہی بیٹھوں گا اور چائے پی لوں گا۔ واہ یہ تھا دوستانہ اور وہ تھا زمانہ۔ اب وہ تمام باتیں یادیں، یاد ماضی کے جھروکے ہو کر رہ گئے ہیں۔بہرحال اسی دوران رائے بہادر دولت رائے وہورا کو اپنی بیماری کا پتہ شکاگو (امریکہ) چلا تو وہ مایوس ہوگیا میں اور میری بھانجی دوخانہ شکاگو گئے، ڈاکٹر اکثر کیمو ٹریٹمنٹ کے بعد ملنے سے منع کردیتے ہیں۔ میں اجازت سے داخل ہوگیا۔ دولت رائے کو معلوم ہوگیا کہ وہ چند دن کا مہمان ہے۔ آخر کار ایک مہینہ آئی سی یو (شکاگو) میں گذارکر دوست دولت رائے دولت کو چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوگیا۔