وسطی دہلی کے نیتا جی سبھاش چندر بوس مارگ کے پاس دہلی گیٹ کے چوراہے پر کل رات تین نو عمر لڑکوں کی لاشیں ملی، دیکھنے کے بعد پورے علاقہ میں سنسنی پھیل گئی، تینوں کے نام سعد، حمزہ اور اسامہ ہیں، وہ آپس میں رشتے دار تھے اور شادی کی تقریب سے اپنے گھروں طرف اسکوٹی کے ذریعے جا رہے تھے۔
علاقائی پولیس نے دعویٰ کیا کہ یہ سڑک حادثہ کی وجہ سے انکی موت ہوئی ہے، مگر انکے اہل خانہ نے پولیس کی نیت پر سوال اٹھائیں ہیں اور انہیں ملزم ٹہرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انکے گھر والوں نے کہا کہ تقریب سے لوٹ کر گر کی طرف ہی آ رہے تھے ایک پولیس گاڑی انکے پیچھے پڑھ گئی، مرنے والوں میں تینوں لڑکوں کی عمریں 16سے 18 کے درمیان تھی۔
اے ای این ایس کی رپورٹ کے مطابق متاثر سعد نامی لڑکے کے والد نے کہا کہ یہ حادثہ نہیں ہے بلکہ اس قتل کہ دہلی پولیس ذمہ دار ہے، اگر وہ گشتی گاڑی بچوں کا تعاقب نہیں کرتی تو وہ صحیح سلامت رہتے۔ رکشہ والوں کی مدد سے انہیں اسپتال میں بھرتی کیا گیا۔
رات میں پیش ہونے والے اس اندوہناک واقعہ کی معلومات گھنٹوں تک میڈیا کو نہیں دینے والے سنٹرل دہلی کے ڈی سی پی اور دہلی پولس کے ؛ترجمان مندیپ سنگھ رندھاوا نے اتوار کے روز صبح ساڑھے گیارہ بجے واٹس ایپ گروپ پر پیغام بھیج کر بتایا کہ وہ دن کے ڈیڑھ بجے اس واقع کی معلومات پریس کانفرنس کے ذریعہ میڈیا کو دیں گے۔
سعد کے والد نے الزام لگایا ہے کہ اگر سینٹرل پولیس واقع میں ایماندار ہے تو وہ اس واقعے کا سی سی ٹی وی فوٹیج عوام کو بتائیں۔ فوٹیج کے ذریعے معاملہ سب کے سامنے اۓ گا۔
عینی شاہدین اور میڈیا کا کہنا ہے کہ واقعہ کے بعد ڈی سی پی اور چند افسران جاۓ حادثہ پر پہونچے، مگر سوال یہ ہے کہ جب افسران وہاں موجود تھے تو سی سی ٹی وی فوٹیج کیوں چھپایا جا رہا ہے،؟
لوگوں کا کہنا ہے اگر یہ حادثہ ہے تو پولیس اس واقعہ کو اتنا کیوں چھپاۓ رکھا، اور میڈیا تک کو خبر نہیں ملی جبکہ دہلی میں ہر چھوٹی چیز کا بھی بہت ہنگامہ ہوتا ہے۔
بات یہی سامنے اتی ہے کہ واقعہ کے اتنی دیر بعد بھی کسی کو نہ بتانا اور پولیس پر اہل خانہ کا الزام صحیح معلوم ہوتا ہے، پولیس جلدی اپنے دامن کو اس سے صاف نہیں کر پاۓ گی۔