اب چلتے ہیں وقف ترمیمی بل کی طرف جس پر اپوزیشن نے زبردست ہنگامہ کیا ۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وقف کے بارے میں تشکیل دی گئی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ سے اپوزیشن کے ارکان نے جو عدم اتفاق کرتے ہوئے اختلافی نوٹ پیش کئے تھے وہ حذف کئے گئے تھے یا نہیں ۔ آخر کیوں لوک سبھا میں وزیر داخلہ امیت شاہ کو کہنا پڑا کہ ان کی پارٹی پارلیمانی کمیٹی سے اپوزیشن کے اختلافی نوٹ کو ہٹائے جانے کے حق میں نہیں ہے۔ لوک سبھا میں دوپہر کے وقت جب وقف ترمیمی بل پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ پیش کی گئی تب اپوزیشن کے ارکان اسے لے کر برہم ہوگئے کہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ سے ان کے اختلافی نوٹ حذف کردئے گئے ۔ اس وقت 2 بجکر 10 منٹ ہورہے تھے ۔ لوک سبھا میں امیت شاہ کھڑے ہوتے ہیں اور رپورٹ میں شامل کئے جانے کی بات کرتے ہیں۔ امیت شاہ کو لوک سبھا کے اسپیکر سے مانگ کرنی پڑتی ہے کہ جو بھی جوڑنا ہے اسے جوڑا جائے ۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ تو بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ جگدمبیکا پال ہی ہیں۔ اگر وزیر داخلہ کے مطابق ان کی پارٹی کو اعتراض نہیں ہے کہ جو بھی جوڑنا ہے اسے جوڑا جائے تو اس رپورٹ میں پہلے سے کیوں نہیں جوڑا گیا لیکن یہ نوبت کیوں آئی ؟ جگدمبیکا پال نے بھی کہہ دیا کہ رپورٹ کے قبول کئے جانے کے بعد ہم نے اپوزیشن لیڈروں سے کہا ہے کہ اپنا وہ نوٹ جمع کرائیں جس میں عدم اتفاق و عدم اطمینانی کا اظہار کیا گیا ہے ۔ ان کے اختلافی نوٹ کو Annexure میں شامل کیا جائے گا تو کیا راجیہ سبھا میں کرن رجیجو کسی بات سے انجان تھے کیوں پارلیمانی امور و اقلیتی بہبود کے وزیر دعوے کے ساتھ کہتے رہے کہ رپورٹ سے کچھ بھی حذف نہیں کیا گیا جبکہ لوک سبھا میں جگدمبیکا پال سے لے کر وزیر داخلہ کہہ رہے ہیں کہ اگر کچھ حذف کیا گیا ہے تو اسے رپورٹ میں دوبارہ شامل کیا جائے گا ۔ راجیہ سبھا میں حکومت کے وزیر کرن رجیجو صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ رپورٹ سے کچھ بھی نہیں ہٹایا گیا ہے۔ ان کے بیان کے بعد راجیہ سبھا کے صدرنشین نے بھی یہ کہہ دیا کہ جب وزیر موصوف ہی کہہ رہے ہیں کہ کچھ بھی نہیں ہٹا یا گیا تب بات ختم ہوجانی چاہئے ۔ وزیر کے بیان کی وجہ سے صدرنشین نے رپورٹ میں جوڑنے کی بات نہیں کی اور کہا کہ قواعد و ضوابط کا خیال رکھئے جبکہ اپوزیشن مطالبہ کرتی رہی کہ اپوزیشن کے نوٹ کو شامل کیا جائے ۔ انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق لوک سبھا میں اسپیکر اوم برلا کہتے ہیں کہ رپورٹ کو لے کر کچھ ارکان ان سے ملے اور اس کے بعد رپورٹ کے Annexure میں جوڑا گیا ہے تو لوگ سبھا میں جوڑا گیا یعنی ہٹایا گیا تھا ، تب ہی جوڑا گیا ۔ یعنی اپوزیشن ارکان کا مطالبہ درست تھا لیکن راجیہ سبھا میں اس وقت جوڑنے کی بات نہیں ہوئی تو کیا اب ایک ہی معاملہ میں دونوں ایوانوں میں الگ الگ رپورٹ ہے یا راجیہ سبھا میں جوڑا گیا ہوگا۔ اس کی معلومات ہمارے پاس نہیں ہے ۔ پہلے پیش کئے جانے کی وجہ سے راجیہ سبھا میں ہنگامہ رہا جس کی وجہ سے لوگ سبھا میں اپوزیشن کے ارکان برہم ہوگئے ۔ لوک سبھا کے رکن اے راجہ ، کلیان بنرجی ، عمران مسعود ، محمد جاوید اور گورو گوگوئی شامل ہیں۔ ایم آئی ایم کے اسد الدین اویسی نے بھی اسپیکر سے ملاقات کی اور ان ارکان نے اسپیکر سے کہا کہ ان کے اختلافی نوٹ نہیں ہیں۔ تب اسپیکر نے کہا کہ نوٹ کو شامل کیا جائے گا ۔ میڈیا میں یہ سب شائع ہوا بھی ہے ۔ اس کے بعد اسد اویسی نے کہا کہ سارے ارکان، پارلیمنٹ کی لائبریری میں بیٹھے اور ان حصوں کو شامل کرنے کے بعد رپوٹ پیش کی گئی ۔ تو یہ حال ہے راجیہ سبھا میں حکومت ایک بیان دے رہی ہے اور لوک سبھا میں اس کا موقف الگ ہے۔