’’آئی لو محمدؐ‘‘…جوش سے زیادہ ہوش کی ضرورت
آر ایس ایس کے 100 سال … انگریزوں کے ساتھی آج دیش بھکت
رشیدالدین
’’باخدا دیوانہ باشد بامحمدہوشیار‘‘ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت ایمان کا لازمی جز ہے جس کے بغیر ایمان کامل نہیں کہا جاسکتا۔ صرف محبت رسولؐ کے دعوے کافی نہیں بلکہ محبت کے کچھ تقاضے بھی ہیں جن میں اطاعت کو اولیٰ درجہ میں رکھا گیا ہے۔ جس کسی سے بھی محبت اور عقیدت ہوتی ہے، انسان اُن کے رنگ اور ڈھنگ کو اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مسلمانوں کے لئے اگر کوئی آئیڈیل ہیں تو محمد الرسول اللہ ﷺ اور آپؐ کا اُسوۂ حسنہ ہے۔ اِسی بات کو قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے کچھ یوں بیان کیا ہے: ’’لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ‘‘۔ اُمت مسلمہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت اور عقیدت میں وہ دیگر اقوام کی نظر میں قابل رشک بن چکے ہیں۔ اُمت کا ہر فرد عظمتِ رسالتؐ اور ناموس رسالتؐ پر اپنی جان قربان کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں نے مسلمانوں کی اپنے رسولؐ سے محبت کا بارہا امتحان لیا ہے۔ دنیا کے کسی گوشے میں ناموس رسالتؐ کی شان میں گستاخی کی کوشش کی گئی تو ساری دنیا کے مسلمان تڑپ اُٹھے اور گستاخوں کو سبق سکھانے تک چین کی سانس نہیں لی۔ ہندوستان میں بھی وقفہ وقفہ سے شرپسندوں نے مسلمانوں کی ایمانی حرارت کو للکارنے کی کوشش کی ہے اور ہر موقع پر مسلمان ناموس رسالتؐ کے لئے امتحان میں کامیاب رہے۔ ملک میں اِن دنوں ’’آئی لو محمدؐ‘‘ نعرے کی آڑ میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا ماحول پیدا کرتے ہوئے ہندو ووٹ بینک کو مستحکم کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ اگر کوئی مسلمان ’’آئی لو محمدؐ‘‘ کی تحریر آویزاں کرتا ہے تو یہ کوئی قانونی جرم نہیں کیوں کہ دستور ہند نے ہر شہری کو مذہبی آزادی کا حق دیا ہے۔ اپنی پسند کے مذہب کو اختیار کرنے کے علاوہ اُس کی تبلیغ کی اجازت دی ہے۔ مسلمانوں کی جانب سے حضور اکرم ﷺ سے محبت و عقیدت کا یہ اظہار بھی فرقہ پرستوں اور نفرت کے سوداگروں کو پسند نہیں۔ کئی مقامات پر پولیس نے مقدمات درج کرتے ہوئے مسلم نوجوانوں کو تھرڈ ڈگری اذیت کا شکار بنایا اور سڑکوں پر پریڈ کرائی گئی۔ اترپردیش کے بریلی میں مسلمانوں پر بیدردانہ لاٹھی چارج اور بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کے ذریعہ یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے اور اُن میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی۔ مولانا توقیر رضا خان اور اُن کے ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا۔ اُن کے سارے خاندان کو نشانہ بناتے ہوئے مکانات پر بلڈوزر چلایا گیا۔ بریلی کے واقعہ نے ’’آئی لو محمدؐ‘‘ مہم کے خلاف بی جے پی اور سنگھ پریوار کی سازش کو بے نقاب کردیا ہے جو حقیقی عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے اور حکومت کی ناکامیوں کو چھپانے کا ایک موقع ہاتھ لگ گیا۔ محبت رسولؐ کے مسئلہ کو سیاسی رنگ دیتے ہوئے بی جے پی بہار میں انتخابات میں کامیابی کی تیاری کررہی ہے۔ آج تک یہ طے نہیں ہوسکا کہ ملک میں ’’آئی لو محمدؐ‘‘ کی مہم کس نے اور کیونکر شروع کی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ماحول بگاڑنے کے لئے منظم سازش کے تحت بھولے بھالے مسلمانوں کو اِس نعرے کے ساتھ میدان میں اُتار دیا گیا ہو۔ ملک کے موجودہ حالات میں جبکہ جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کو کھلی چھوٹ دی جاچکی ہے اور نظم و نسق میں سنگھ پریوار کی ذہنیت کو سرائیت کردیا گیا ہے، مسلمانوں کے تمام مسالک اور مکاتب فکر کے علماء اور اکابرین کی رائے میں مسلمانوں کو جوش سے زیادہ ہوش کی ضرورت ہے۔ شعور کے مظاہرہ کے ذریعہ مخالف اسلام و مسلم طاقتوں کے عزائم کو شکست دی جاسکتی ہے۔ جہاں تک اسلام کی اصل روح کا سوال ہے، دعوے سے زیادہ عمل کو فوقیت دی گئی ہے۔ اگر کوئی محبت رسول کے دعوے کے ساتھ اُسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہو تو اُن کے لئے ایک رول ماڈل ہے جو محض دعویٰ اور نعرے پر اکتفا کرتے ہیں۔ ’’آئی لو محمدؐ‘‘ کا نعرہ یقینا ایمانی حرارت پیدا کرتا ہے لیکن ہمیں سوچنا ہوگا کہ اِس نعرے کی اگر کوئی مخالفت کرے تو وہ بالواسطہ طور پر توہین رسالتؐ کے زمرہ میں آئے گا۔ لہذا ضرورت اِس بات کی ہے کہ اِس مقدس نام کو سیاسی اغراض کے لئے استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کے پاس فی الوقت کوئی متنازعہ مسئلہ نہیں ہے جسے ایجنڈہ بناکر وہ ملک میں نفرت کا ماحول پیدا کرسکیں۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کو اچانک میدان میں اُتارا گیا جنھوں نے بابری مسجد اور گیان واپی مسجد کے بارے میں متنازعہ بیانات دیتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ دونوں مساجد پر ہندوؤں کی دعویداری درست ہے۔ جسٹس چندرچوڑ کے اِس بیان کی بڑے پیمانہ پر تشہیر کی جارہی ہے اور گودی میڈیا کے مختلف چیانلوں میں اُن کے انٹرویوز کا سلسلہ جاری ہے۔ سنگھ پریوار اور بی جے پی منظم سازش کے تحت ’’آئی لو محمدؐ‘‘ کے نعرے پر مسلمانوں کو مشتعل کرنا چاہتے ہیں تاکہ سارے ملک میں ماحول کو فرقہ وارانہ رنگ دیا جائے۔ مسلمان بنیادی طور پر جذباتی ثابت ہوا ہے لیکن اُسوۂ حسنہ میں ہمیں حکمت کی بھی تعلیم دی گئی ہے۔ جذباتی فیصلوں کے بجائے اگر حکمت سے حالات کو نمٹا جائے تو مخالفین کے منصوبوں کو شکست دی جاسکتی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت اور عقیدت کے بارے میں ایک مسلمان کو اظہار کی ضرورت نہیں کیوں کہ یہ ایمان کا جزلاینفک ہے۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کے سامنے محبت رسولؐ کے اظہار سے کوئی فائدہ نہیں کیوں کہ جو ازلی طور پر دشمن اسلام ہوں، اُن سے احترام کی اُمید کرنا فضول ہے۔ راہول گاندھی کی مخالف ووٹ چوری مہم نے بہار میں بی جے پی کی کشتی کو بھنور میں پھنسا دیا ہے۔ ملک گیر سطح پر بی جے پی کی جانب سے الیکشن کمیشن کی مدد سے کی گئی ووٹ چوری نے عوام کو باشعور بنادیا اور بہار میں شکست بی جے پی کے لئے نوشتہ دیوار بن چکا ہے۔ اِن حالات میں ’’آئی لو محمدؐ‘‘ مہم کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر ووٹ چوری مہم کے اثرات کو زائل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اترپردیش کے واقعات کے بعد ووٹ چوری مخالف مہم سے عوام کی توجہ ہٹانے میں کسی حد تک کامیابی ضرور ملی ہے۔ وقف ترمیمی قانون، لداخ میں نوجوانوں کا احتجاج، منی پور تشدد اور دیگر مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے بی جے پی اِس مہم کو مزید ہوا دے سکتی ہے۔ اترپردیش کے بعد بہار میں بھی فرقہ وارانہ کارڈ کھیلنے کی تیاری ہے تاکہ انڈیا الائنس کی مہم کمزور ہو اور ہندوتوا ووٹ بینک کو متحد کیا جائے۔ نریندر مودی اور نتیش کمار کے پاس کوئی ایسا کارنامہ نہیں جس کی بنیاد پر بہار میں ووٹ مانگ سکیں۔ لہذا فرقہ وارانہ ایجنڈہ ہی کام آسکتا ہے۔ مسلمانوں کی سیاسی اور مذہبی قیادت کے علاوہ سماجی جہدکاروں کو نازک حالات میں صحیح رہنمائی کرنی چاہئے تاکہ زعفرانی سازش کا شکار ہونے سے مسلمان بچ جائیں۔ بی جے پی نے مسلمانوں کو ’’آئی لو محمدؐ‘‘ مہم پر بھڑکانے کے لئے یوگی آدتیہ ناتھ اور دوسرے نفرت کے سوداگروں کو میدان میں اُتار دیا ہے لیکن مسلمان ہوش اور حکمت کے ذریعہ صورتحال کا مقابلہ کریں کیوں کہ فراست کو مسلمانوں کی میراث اور اثاثہ کہا گیا ہے۔ موجودہ وقت اور حالات مسلمانوں کی مومنانہ فراست کا امتحان ہیں۔
آر ایس ایس نے اپنے قیام کے 100 سال کی تکمیل کا جشن منایا ہے۔ اِسے محض اتفاق ہی کہا جائے گا کہ آر ایس ایس کے قیام کے 100 سال گاندھی جینتی کے دن مکمل ہوئے اور مبصرین کے مطابق گاندھی جی کے قاتلوں کے وارثین نے اپنے قیام کے جشن میں آزادیٔ ہند کے عظیم سورما کو فراموش کردیا۔ 1925ء میں آر ایس ایس کا قیام عمل میں آیا تھا اور وجئے دشمی کے دن اُس کے 100 سال مکمل ہوئے۔ اُسی دن یعنی وجئے دشمی 1956ء کے دن ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر نے اجتماعی طور پر دھرم پریورتن (تبدیلیٔ مذہب) کا اعلان کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آر ایس ایس کا ہیڈکوارٹر ناگپور ہے اور ڈاکٹر امبیڈکر نے ہزاروں حامیوں کے ساتھ ناگپور میں ہی تبدیلیٔ مذہب کا اعلان کیا تھا۔ وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے سرکردہ قائدین نے ملک کے مختلف علاقوں میں آر ایس ایس کے 100 سالہ جشن میں شرکت کی۔ نریندر مودی نے جو ہوائی باتوں کے لئے دنیا بھر میں شہرت رکھتے ہیں، اُنھوں نے جدوجہد آزادی میں آر ایس ایس کے اہم رول کا دعویٰ کرتے ہوئے مؤرخین کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ عمر کے 75 سال کی تکمیل پر عہدہ سے محرومی کے خوف نے نریندر مودی کو آر ایس ایس کے گن گان پر مجبور کردیا ہے۔ نریندر مودی نے یوم آزادی کے موقع پر تاریخی لال قلعہ سے بھی آر ایس ایس کی جم کر تعریف کی تھی۔ 1948ء میں وزارت داخلہ کا مکتوب خود اِس بات کا گواہ ہے کہ آر ایس ایس نے ترنگے کی توہین کی تھی۔ آر ایس ایس ہیڈکوارٹر پر آزادی کے 53 برس تک ترنگا نہیں لہرایا گیا اور ترنگا لہرانے کا مطالبہ کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کو آر ایس ایس کی سرپرستی حاصل تھی۔ جس وقت گاندھی جی قتل کا مقدمہ چل رہا تھا، ساورکر عدالت میں گوڈسے کے ساتھ دکھائی دیئے۔ آر ایس ایس نے انگریزوں کے خلاف ہندوستان چھوڑو تحریک کی مخالفت کی اور محمد علی جناح کا ساتھ دیا تھا۔ آر ایس ایس قائدین نے سندھ اور بنگال میں محمد علی جناح کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی اور ساورکر حکومت میں ڈپٹی چیف منسٹر رہے۔ ایک درجن سے زائد مواقع پر انگریزوں سے معافی کے مکتوب روانہ کرنے والے آر ایس ایس قائدین آج دیش بھکت ہوچکے ہیں۔ سبھاش چندر بوس کی مخالفت آر ایس ایس نے کھل کر کی تھی۔ اِن تاریخی حقائق کو فراموش کرتے ہوئے مرکزی حکومت نے آر ایس ایس کے 100 سال کی تکمیل پر یادگاری ڈاک ٹکٹ اور 100 روپئے کا سکّہ جاری کیا۔ سکّہ پر آر ایس ایس کے پرچارکوں کو دکھایا گیا ہے۔ یادگاری سکّہ جاری کرنا دراصل مجاہدین آزادی اور جدوجہد آزادی کی توہین ہے۔ آر ایس ایس کے پرچارک ملک کے وزیراعظم کے عہدہ پر فائز ہیں اور اقتدار کے نشے میں آر ایس ایس نے 100 سالہ جشن کا بڑے پیمانہ پر اہتمام کرتے ہوئے مذہبی اقلیتوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ آر ایس ایس نے بھلادیا ہے کہ سردار پٹیل نے آر ایس ایس پر پابندی عائد کی تھی۔ 1930ء میں سیول نافرمانی تحریک اور 1942ء میں ہندوستان چھوڑ دو تحریک کی آر ایس ایس نے مخالفت کی تھی۔ کانگریس ترجمان سپریا شرنیت نے بہت خوب ریمارک کیا ہے کہ ’’جو دیش بھکت تھے جنگ میں گئے اور جو غدار تھے وہ سنگھ میں گئے‘‘۔ منظر بھوپالی نے حکمرانوں کو کیا خوب مشورہ دیا ہے ؎
راج کرنا ہے کرو ، آگ لگایا نہ کرو
دھرم کے نام پہ لوگوں کو لڑایا نہ کرو