راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)مخالف مسلم سرگرمیوں کا محور

   

محمد نصیرالدین
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا نام گزشتہ 2 دہوں سے زبان زد عام و خاص بن گیا ہے۔ ملکی سیاست میں RSS کا اثر و رسوخ گہرا ہوگیا ہے۔ مرکزی حکومت بھی ہر اہم مسئلہ اور موقع پر آر ایس ایس کی طرف دیکھنے لگتی ہے اور جو اشارہ وہاں سے ملتا ہے وہی کرنے لگتی ہے۔ گرچیکہ آر ایس ایس کے سنچالک بہت کم میڈیا میں نظر آتے ہیں لیکن مرکزی حکومت کا ہر فیصلہ اُن ہی کا مرہون منت ہوتا ہے۔ دوسری طرف آر ایس ایس اقلیتوں کے لئے ایک بھیانک تصویر بن چکی ہے۔ اقلیتوں کے خلاف جو کچھ ملک میں ہوتا ہے، ناانصافی ہوتی، فسادات ہوتے ہیں، مساجد نشانہ بنتی ہیں، حقوق پر دست درازی ہوتی ہے، مذہبی شعائر نشانہ بنتے ہیں، بلااشتعال ظلم و زیادتی ہوتی ہے، تعلیمی ادارے یا وقف املاک پر خطرے کے بادل منڈلاتے ہیں تو آر ایس ایس ہی کو اس کا ذمہ دار کہا جاتا ہے کیوں کہ راست یا بالواسطہ آر ایس ایس کی سرپرستی کے بغیر ملک میں کسی اور تنظیم کو اقلیتوں کی طرف بدنیتی سے دیکھنے کی بھی ہمت یا جرأت نہیں ہوتی۔ آیئے دیکھیں کہ آر ایس ایس کے قیام کا کیا مقصد رہا ہے اور کیسے وہ اس ملک میں سرخ و سفید کی مالک بن گئی ہے!!
27 ستمبر 1925ء کو مہاراشٹرا کے شہر ناگپور میں آر ایس ایس کا قیام عمل میں آیا۔ ڈاکٹر کیشو بلیرام ہیڈگوار کو آر ایس ایس کی بنیاد رکھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ابتداء ہی سے آر ایس ایس کی بنیاد ’’ہندوتوا‘‘ نظریہ پر رکھی گئی جسے ونائک دامودر ساورکر نے وضع کیا۔ درج ذیل بنیادی نکات کے ساتھ آر ایس ایس کی داغ بیل رکھی گئی۔ (1) ثقافتی قوم پرستی: بھارت کو بنیادی طور پر ہندو تہذیب و ثقافت کی سرزمین اور ہندو روایات اور اقدار کو قوم کی روح قرار دیا گیا۔ (2) ہندو اتحاد : ذات، زبان اور علاقہ کی تقسیم سے بالاتر ہوکر ہندوؤں کو ایک طاقتور اور منظم قوم بنایا جائے۔ آر ایس ایس شاکھاؤں میں روزانہ رضاکاروں کو جسمانی مضبوطی اور قومی جذبہ سے سرشار ہونے کی تربیت فراہم کی جائے۔ (4) خدمت خلق : سیوم سیوکوں میں سماجی خدمات کا جذبہ پیدا کیا جائے تاکہ وہ آفات سماوی و ارضی میں باشندگان ملک کی خدمت کرسکیں۔ (5) ہندو راشٹر کا قیام : بھارت کو ایک ایسے ملک کے طور پر قائم کرنا جہاں ہندو اقدار اور شناخت اس کی پہچان ہو اور ہندو قوم پرستی ہر نوجوانوں کا مطمع نظر بن جائے۔
آر ایس ایس کی تاریخ بتلاتی ہے کہ آر ایس ایس کے بانی اور بعد میں اس کے تمام سنچالکوں نے انتہائی منظم انداز میں، دور رس نگاہ کے ساتھ اور ہر قسم کے نام و نمود و شہرت سے دور رہ کر آر ایس ایس کے بنیادی مقاصد کے لئے رات دن محنت کی اور کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ آر ایس ایس کی کامیابیوں کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ ہندو سماج میں زبردست بیداری، اتحاد، ہندو قوم پرستی کا جذبہ اور ہندو شناخت کی بازیابی اس کا زبردست کارنامہ ہے۔ تقسیم ہند کے بعد مہاجرین کی مثالی بازآبادکاری اور مدد ہندوتوا نظریہ کے فروغ کا زبردست ذریعہ ثابت ہوا۔ سیاسی میدان میں اثر پذیری کے لئے ڈاکٹر شیاما پرساد مکرجی نے آر ایس ایس کی حمایت سے 1951ء میں بھارتیہ جن سنگھ کی بنیاد رکھی جو بعد میں بی جے پی میں تبدیل ہوگئی۔ آر ایس ایس نے سیدھے سادھے انداز میں سیاسی میدان میں اثر و نفوذ کی کوشش کی لیکن اس میں بُری طرح ناکام ہوگئے۔ تب اُنھوں نے اپنی Strategy میں تبدیلی لائی اور ہندوتوا جذبات سے کھلواڑ کرتے ہوئے سیاسی میدان میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ آر ایس ایس نے رام جنم بھومی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا اور بھولے بھالے ہندو عوام کو بھگوان رام کے نام پر متحد کرنے کا بیڑہ اُٹھایا اور اس میں شدت پیدا کرنے لگی چنانچہ 1990ء سے اسے سیاسی میدان میں عروج حاصل ہونے لگا۔ ہندو عوام کو رام کے نام پر متحد کیا جانے لگا اور علانیہ بی جے پی نے رام مندر تحریک کو پارٹی کا انتخابی Issue تک بنا ڈالا اور ہندو ووٹ بینک کو مستحکم اور مضبوط کیا جانے لگا۔ چنانچہ آج ملک کی اہم ترین سیاسی و غیر سیاسی شخصیات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ اکثر و بیشتر کا تعلق آر ایس ایس سے ہے۔ حتیٰ کہ سیول سرویسز، پولیس، فوج اور تمام اہم اداروں عدلیہ، مقننہ، مختلف کمیشن میں آر ایس ایس کے تربیت یافتہ افراد پائے جاتے ہیں۔
آر ایس ایس کے زیراثر 100 سے زائد تنظیمیں ملک بھر میں ہندوتوا فکر کو لے کر سرگرم عمل ہیں۔ چند اہم تنظیموں کی مختصر تفصیلات ذیل میں دی جارہی ہیں۔ سیاسی ونگ بی جے پی ہے جس کے 18 کروڑ ورکرس بتائے جاتے ہیں۔ طلباء تنظیم ABVP سرگرم عمل ہے جس کا 4500 سے زائد یونیورسٹیز اور کالجس میں نیٹ ورک قائم ہے اور اس کے 35 لاکھ ممبرس ہیں۔ مزدوروں میں کام کے لئے BMS قائم ہے جس کے قریب ایک کروڑ ورکرس ہیں۔ کسانوں میں کام کرنے کے لئے BKS ہے جس سے 90 لاکھ کسان وابستہ ہیں۔ مذہبی کاموں کے لئے VHP قائم ہے جس سے 15 لاکھ افراد منسلک ہیں۔ سماجی اور فلاحی کام کے لئے ’’سیوا بھارتی‘‘ اور خواتین میں کام کے لئے ’’راشٹرا سیویکا سمیتی‘‘ سرگرم عمل ہیں۔ تعلیمی میدان میں ماہرین تعلیم کے لئے ’’بھارتیہ شیکشا منڈل‘‘ قائم ہے۔ نسل نو کی جسمانی اور فکری تربیت کے لئے 65,000 شاکھائیں قائم ہیں اور RSS کی آواز پر سر دھڑ کی بازی لگانے والوں کی تعداد 60 لاکھ بتائی جاتی ہے۔ RSS میں دو طرح کے کارکن پائے جاتے ہیں۔ ایک ہمہ وقتی دوسرے جزوقتی کارکن۔ بتایا جاتا ہے کہ ہمہ وقتی کارکن شادی نہیں کرتے اور نہ ہی نوکری یا کاروبار کرتے ہیں اور نہ ہی جائیداد رکھتے ہیں۔ وہ تنظیم کا ہر اوّل دستہ شمار ہوتے ہیں۔ تنظیم کی ہدایت کے مطابق سرگرم عمل ہوتے ہیں۔ ان کے تمام اخراجات اور ضروریات تنظیم برداشت کرتی ہے۔ “Vidya Bharthi” کے نام سے ملک میں 12000 ابتدائی اسکول چلائے جارہے ہیں جہاں 40 لاکھ طلباء کو تعلیم دی جاتی ہے اور ساتھ ہی ان کا بھگوا کرن بھی کیا جاتا ہے۔ دیہی اور قبائیلی علاقوں میں “Ekal Vidyalaya” کے نام سے ایک استاد پر مشتمل 80000 اسکول چلائے جارہے ہیں جہاں مذہبی اور بنیادی تعلیم دی جاتی ہے۔ ملک کے 800 اضلاع میں آر ایس ایس کا جال پھیلا ہوا ہے۔ 60000 روزانہ کی بنیاد پر اور 180000 ہفتہ وار اور ماہانہ کی بنیاد پر شاکھائیں چلائی جارہی ہیں اور ہر شاکھا میں 40 تا 50 کارکن ہوتے ہیں جنہیں ہندوتوا فکر و نظر میں ڈھالا جاتا ہے۔
درج بالا تحریر سے اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ ملت کے دانشور، مصلحین اور مخلصین RSS کے تئیں واقفیت حاصل کریں اور ملت کی کیفیت اور سرگرمی کا تقابل کریں!! کس طرح نئی نسل کو ’’ہندوتوا‘‘ کے سانچے میں ڈھالا جارہا ہے اور ہندوتوا کا سپاہی بناکر انتہائی خاموشی کے ساتھ ملک کی باگ ڈور پر قبضہ کیا گیا ہے۔ ملت میں سرگرم عمل اصحاب و تنظیموں کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ کمی ہے جس کی وجہ سے ملت کی حالت دگرگوں ہے اور نئی نسل دین و دنیا سے بالعموم بیگانہ ہوتی جارہی ہے۔ اگر ملت کے ارباب حل و عقد ابھی بھی بیدار نہیں ہوں گے اور بدلتے حالات میں بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ آپس میں جڑکر کام نہیں کریں گے تو محض ’’دُعا‘‘ سے ملت کو زوال و رسوائی سے نہیں بچایا جاسکے!! ؎
رہِ منزل سے آگاہی نہ منزل کی خبر اب تک
یونہی ہوتی رہی ہے زندگی بسر اب تک