پی چدمبرم
رافیل معاملت پر سے اَسرار کے پردے بی جے پی کی توقع سے کہیں زیادہ تیزی سے ہٹتے جارہے ہیں۔ اگر حکومت اور برسراقتدار پارٹی نے قیاس کیا تھا کہ وہ حالیہ وقتوں میں دفاع کی سب سے زیادہ غیرشفاف خریداری کو پوشیدہ رکھ سکتے ہیں تو انھوں نے غلط سوچا، اور وہ ہتک کے ساتھ بے نقاب کئے جاچکے ہیں۔ اس کا کریڈٹ بڑی حد تک ’دی ہندو‘ اور اس پبلشنگ فرم کے چیئرمین آف دی بورڈ مسٹر این رام کے حق میں جاتا ہے۔ تاہم، دیگر اہم اشخاص بھی رہے اور ہیں جو حکومت اور اس کے قائدین کے غیرمعمولی دباؤ کو جھیلنے پر تعریف و ستائش کے مستحق ہیں۔
نئی اور ناقص معاملت
سب سے پہلے ان حقائق پر نظر ڈالتے ہیں جو آشکار ہوئے ہیں۔
.1 اب یہ تصدیق ہوچکی ہے کہ رافیل معاملت وزیراعظم مودی کا ’وَن مین شو‘ ہے۔ مسٹر مودی کوریوگرافر رہے، اسے محتاط انداز میں ترتیب دیا گیا، اور تمام اہم فیصلے دفتر وزیراعظم (پی ایم او) نے کئے۔
.2 یو پی اے دور کی یادداشت مفاہمت (MoU) کو منسوخ کردینے کا فیصلہ کوئی ٹھوس وجوہات کی بناء پہلے نہیں کیا گیا؛ بلکہ نئی معاملت کرنے کا فیصلہ پہلے کیا گیا اور، چونکہ قبل ازیں طے شدہ ایم او یو رکاوٹ تھی، اس لئے اسے منسوخ کیا گیا۔
.3 کلیدی اشخاص کو اس سارے عمل سے دور رکھا گیا: وزیر دفاع، وزیر امور خارجہ، وزیر فینانس، ایئر فورس، ڈیفنس ایکویزیشن کونسل (DAC) اور کابینی کمیٹی برائے سلامتی (CCS) ۔
.4 پیرس میں 8 اپریل 2015ء کو معتمد خارجہ نے میڈیا کو بتایا کہ رافیل مذاکرات دونوں حکومتوں، ڈسالٹ اور ہندوستان ایروناٹکس لمیٹیڈ (HAL) کے مابین آخری مرحلے میں ہیں، اور رافیل وزیراعظم ہند اور صدر فرانس کے درمیان بات چیت کے ایجنڈے پر نہیں رہا۔ دو دن بعد 10 اپریل کو مسٹر مودی اور مسٹر اولاند کے درمیان دو بہ دو میٹنگ کے بعد نئی معاملت کا اعلان کیا گیا!
.5 نئی معاملت واقعی ’نئی‘ معاملت ہے۔ 126 طیارے نہیں، بلکہ صرف 36 طیارے۔ قبل ازیں طے شدہ قیمت پر نہیں، بلکہ نئی قیمت۔ پہلے نشاندہی کردہ آفسٹ پارٹنر (ایچ اے ایل) نہیں، بلکہ نیا ذیلی شراکت دار (ایسی پرائیویٹ کمپنی جسے طیارہ یا طیارہ کے پُرزے تک تیار کرنے کا تجربہ نہیں)۔ یہ فیصلے دونوں قائدین کے درمیان 10 اپریل کی میٹنگ میں کئے گئے، نہ کہ دونوں مذاکراتی ٹیموں کے درمیان مذاکرات کے بعدطے ہوئے۔
چھوٹ اور غلطیوں کی بھرمار
.6 دو سپلائرز ڈسالٹ اور ایم بی ڈی اے کو ہندوستان کی جانب سے ادا شدنی 60,000 کروڑ روپئے کیلئے ’پے منٹ سکیورٹی میکانزم‘ کو یکسر نظرانداز کردیا گیا۔ کوئی حکومتی ضمانت نہ رہے گی، کوئی بینک گیارنٹی نہیں، اور حتیٰ کہ کوئی escrow account تک نہیں ہے۔ یہ تمام تر چھوٹ پی ایم او کی ہدایت پر دی گئی۔
.7 لازمی انسداد بدعنوانی فقروں کو حذف رکھا گیا۔ کمیشن کی ادائیگی کے خلاف کوئی فقرہ نہ ہوگا، ایجنٹوں کو شامل کرنے کے خلاف کوئی فقرہ نہیں، سالمیت کے بارے میں کوئی معاہدہ نہیں، اور سپلائرز کے کھاتوں کی تفصیلات سے کوئی رسائی نہیں۔ یہ فیصلے بھی پی ایم او نے کئے۔
.8 ہندوستانی مذاکرات ٹیم (INT) کے تین متعلقہ ماہرین مسٹر ایم پی سنگھ، اڈوائزر (کوسٹ)؛ مسٹر اے آر سولے ، ایف ایم (ایئر) اور مسٹر راجیو ورما، جے ایس اینڈ اے ایم (ایئر) کی طرف سے بے اطمینانی کا ٹھوس نوٹ لکھا گیا۔ 8 صفحات میں ظاہر کردہ اعتراض نے آئی این ٹی کے دیگر چار ممبرز کے تجویز کردہ سفارشات کے جواز کو چیلنج کیا اور اُن کی طرف سے زور دیئے جارہے متعدد انحراف اور رعایتوں کی دھجیاں اڑا دیئے۔
’اعلیٰ ترین‘ جانچ پڑتال پر مفاہمت
جب ایک، ایک حقیقت آشکار ہونے لگی تو حکومت حقائق پر کسی طرح پردہ ڈالنے کی جدوجہد میں جٹ گئی۔ سب سے پہلے حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت پناہ لینے کی کوشش کی لیکن وہ چال ناکام ہوگئی کیونکہ فیصلے میں خود واضح کردیا گیا کہ سپریم کورٹ نے قیمت اور طیاروں کی تعداد میں کٹوتی کے مسائل کا جائزہ لینے سے گریز کیا ہے۔ جب پارلیمنٹ میں احتجاج ہوا، حکومت نے پارلیمان کو خاموش کرنے کی کوشش کی… لوک سبھا میں اپنی سوجھ بوجھ سے عاری اکثریت کے ذریعے اور راجیہ سبھا میں کارروائی کے پہلے سے طے شدہ التوا کی حوصلہ افزائی کے ذریعے۔
حکومت نے شاید امید کی تھی کہ سی اے جی (کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل) کی رپورٹ اسے پریشانی سے نکال لے گی۔ یہ رپورٹ پارلیمانی سیشن کے آخری روز پیش کی گئی۔ حکومت کو بچانا تو دور کی بات، اس رپورٹ نے یہ حقیقت فاش کردی کہ حکومت نے ملک کی سپریم آڈٹ باڈی ’سی اے جی‘ کی آزادانہ آواز کو دبانے کی کوشش کی اور کامیاب ہوئی۔ اس رپورٹ نے سستی قیمت اور تیز وصولی کے پروگرام پر حکومت کے دعوؤں کی قلعی بھی کھول دی۔
بہرحال رافیل معاملت دھند سے گھری ہے، لیکن ایک چیز واضح ہے: اس موضوع پر آخری بات ابھی نہیں کہی گئی ہے۔