رام مندر اور لو جہاد ہندو راشٹر کی بنیادیں نہیں

   

زینب سکندر
لو جہاد سیاسی تخیل کا ایک حصہ ہے لیکن یہ سیاست اقتدار کی سیاست ہے جس کی اہمیت کم نہیں کی جاسکتی۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ رام راج کی بنیاد ہندو راشٹر بنے گا تو دوبارہ غور کرلیں۔ درحقیقت وہ ہندوستانی دماغوں کو لو جہاد کے بھوت سے ڈرانا چاہتے ہیں اور ترغیب دینا چاہتے ہیں کہ لو جہاد کا نتیجہ آخر کار ہندو راشٹر کے قیام کی وجہ بنے گا۔
لو جہاد سست رفتار اور مسلسل طور پر گدھوں کے آگے لٹکی ہوئی گاجر کے مماثل ہے جس کی وجہ سے ایک ایسی سیاست قائم ہوگی جس میں سیاست اور مذہب کا امتزاج ہوگا اور ہندو راشٹر کا خواب حقیقت بن جائے گا۔ بے شک جو لوگ بنیادی احساس رکھتے ہوں اور پیش قیاسی کرسکتے ہیں کہ اس کے نتیجہ میں ہندوستان پر آفت آجائے گی۔ اگر اس نظریہ کو عوام قبول کرلیں اور ٹی وی مباحثوں اور سوشل میڈیا پر مباحثوں میں یہ نظریہ مقبول عام ہو جائے۔ لو جہاد کسی بھیانک عفریت میں تبدیل ہو جائے گا جس سے لوگ خوف کھائیں گے۔ انہیں اس بات کی ترغیب ملے گی کہ ایسے خوفناک جاندار کے وجود کو تسلیم کرلیں حالانکہ انہوں نے اسے کبھی نہیں دیکھا لیکن وہ یہ سمجھتے رہیں گے کہ اس سے زیادہ خوفناک جاندار کا وجود ناممکن ہے۔

سیکولر مملکت کی موت
اگر لو جہاد کا پوسٹ مارٹم کیا جائے تو حیرت انگیز انکشافات ہوں گے کیونکہ ناقابل قیاس عرصہ سے اس سرزمین پر اس کے خلاف جنگ ہو رہی ہے اور اس کے نتیجہ میں ایک عوامی مملکت قائم کرنے کا پروپگنڈہ کیا جارہا ہے۔ برادری یا قبیلہ اس کی بنیاد ہوگا۔ یہ سرزمین کا ایک ایسا ٹکڑا ہوگا جس کو حال ہی میں فتح کیا گیا ہو اور یہ ہمارے ملک میں ہی موجود ہو میری مراد ’’رام جنم بھومی‘‘ سے ہے جسے مغلوں نے فتح کیا ہے۔ ہندوستان کے ہندووں کے فخر اور عزت کا احیا کرتے ہوئے واضح طور پر یہ نئی فتح 21 ویں صدی میں نریندر مودی کے نئے ہندوستان کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ انتہا پسند دائیں بازو کے ہندو اس میں یقین رکھتے ہیں کہ ہندو خواتین پر مسلم مردوں کی فتح اسی کے مترادف ہے۔ جو شخص اس پر یقین رکھتا ہے اس میں اترپردیش کے چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ بھی شامل ہیں۔
مسلم مرد پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ ’’غیر ملکی مالیہ کی مدد سے‘‘ ایک سازش پر عمل پیرا ہیں۔ جہادی نظریہ اب ایک گوریلا جنگ کے مماثل بن گیا ہے۔ خوبصورت مسلم مرد گھات لگاکر بے قصور ہندو خواتین کو محبت میں مبتلا ہونے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اس کے بعد مبینہ طور پر یہ مرد اپنی نرم گوئی سے ان کا مذہب ’’محبت‘‘ کی خاطر تبدیل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ہندو خواتین کا مسلم مردوں سے شادی کرنے کا یہ طریقہ لو جہاد کی اصطلاح کے تحت آتا ہے کیونکہ بین مذہبی شادیاں نئے ہندوستان میں ایک حقیقت بن چکی ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے کھل کر اعلان کیا ہے کہ مسلم مرد ’’لو جہاد‘‘ کرکے موت کو دعوت دے رہے ہیں۔ ان کی حکومت بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں قانون سازی کررہی ہے جس کے ذریعہ لو جہاد کے راستے سے ان کی سیکولر نوعیت کی موت ہو جائے گی۔

سرپرست مملکت
ہندو راشٹر کا نظریہ بظاہر انتہائی سادہ نظر آتا ہے۔ ایک ایسا ملک جس کا سرکاری مذہب ’’ہندو ازم‘‘ ہوگا لیکن اگر آپ اس سطح کو کھرچ دیں تو اس کی حقیقت جو فی الحال پوشیدہ ہے آپ کے سامنے ہوگی۔ یہ ایک سرپرست یا آمرانہ حکومت قائم کرنے کی سازش ہے۔ اس مملکت میں صرف مرد حکومت کریں گے۔ ہمیں سرپرستی کے نظریہ کو سمجھ لینا چاہئے۔ لو جہاد کا نظریہ اسی بنیاد پر تخلیق کیا گیا ہے کہ خواتین سوچنے سمجھنے کے قابو نہیں ہوتیں۔ وہ اتنی زیادہ بھولی بھالی ہوتی ہیں کہ وہ دہشت گردوں کا آسانی کے ساتھ شکار بن جاتی ہیں اور ان سے شادی کرلیتی ہیں۔ مذہبی تبدیلیوں کے علاوہ انہیں کسی بھی ادارہ کا انتخاب کرنے کا بھی اختیار ہوتا ہے اکثر کسی خاتون کا خاندان یا والدین شکایت کرتے ہیں کہ وہ ’’لو جہاد‘‘ کا شکار ہوگئی ہے۔ صرف اس لئے کہ ان کی بیٹیاں انتخاب کرنے سے پہلے ان سے مشورہ نہیں کرسکیں۔ کئی انتہا پسند دائیں بازو کے ہندو مرد، ہندو خواتین کو صرف ’’رحم‘‘ کی حد تک محدود سمجھتے ہیں کیونکہ وہ دعویٰٰ کرتے ہیں کہ مسلم مرد ہندو خواتین سے شادیاں کررہے ہیں تاکہ مسلم بچے پیدا کریں۔ اس طرح وہ یہ غلط بیانی میں ملوث ہو رہی ہیں کہ ہندووں کی آبادی ہندوستان میں کم ہو جائیں گی ہندو خواتین اور بھی کم ہوں گی اور ہندو بچے ان سے بھی کم ہوں گے۔ درحقیقت اگر آپ سمجھتے ہیں کہ لو جہاد ایک عصری نظریہ ہے تو آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ دائیں بازو کے ہندو اس نظریہ سے طویل مدت سے وابستہ ہیں۔ 1920 کی دہائی میں یہ نظریہ پہلی بار منظر عام پر آیا تھا اس وقت یہ نظریہ مبینہ طور پر ہندو خواتین کے اغوا کی وارداتوں کے لئے استعمال کیا جاتا تھا جنہیں جون 1924 میں کانپور میں اور مارچ 1928 میں متھرا میں اغوا کرکے جبری طور پر تبدیلیٔ مذہب کے لئے مجبور کیا گیا تھا۔تاریخ کے پروفیسر چارو گپتا نے یہ نظریہ پیش کیا تھا۔