رام مندر تحریک مسلمانوں نے کیا کھویا، کیا پایا؟

   

رام پنیانی
سپریم کورٹ کے بابری مسجد۔ رام جنم بھومی تنازع کے بارے میں فیصلے نے مختلف ردعمل سامنے لائے ہیں۔ جہاں بابری مسجد منہدم کرنے والے سمجھتے ہیں کہ ان کی حرکت کو جائز ٹہرایا گیا ہے اور اس فیصلے کو اعلیٰ ترین عدالت کی جانب سے ان کے اعتقاد اور مذہبی ایقان کو حق بجانب ٹہرائے جانے کے طور پر دیکھ رہے ہیں، وہیں مائنارٹی کمیونٹی اور جمہوریت، تکثیریت اور قانون کی حکمرانی کو مقدم ماننے والوں کی اکثریت اس فیصلے کو انصاف کے اُصولوں کی صریح خلاف ورزی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اس نے یہ سوال بھی کھڑا کردیا ہے کہ اگلا قدم کیا ہے؟ متنازع مقام پر رام مندر کی تعمیر سے جڑے لوگ ٹرسٹ کی تشکیل کے منتظر ہیں جو وہاں زبردست رام مندر تعمیر کرے گا۔
کئی انسانی حقوق گروپس اور بعض مسلم تنظیمیں سپریم کورٹ فیصلے پر نظرثانی کیلئے اپیل کررہی ہیں۔ بعض مسلم گروپس چاہتے ہیں کہ ریویو پٹیشن کے عمل سے گزرنا چاہئے، لیکن بعض دیگر چاہتے ہیں کہ اس مسئلے سے اب ’’آگے بڑھا جائے‘‘۔ بابری مسجد مسئلہ سے ’’آگے بڑھ جانے‘‘ کی اپیل کرنے والوں کا استدلال ہے کہ اس مسئلے نے نہ صرف مسلم برادری کو تکلیف پہنچائی ہے بلکہ فرقہ پرستانہ سیاست کو تقویت بھی بخشی ہے اور اس ملک کی تکثیریت اور ہندوستانی دستور کے بھائی چارہ پہلو کو شدید ضرب لگائی ہے۔
مکتوب بہ عنوان ’move away‘ پر مختلف شعبہ جات حیات سے زائد از 100 مسلمانوں نے دستخط کئے، جن میں شبانہ اعظمی، نصیرالدین شاہ اور جاوید آنند شامل ہیں اور انھوں نے وسیع طور پر زیرگشت مکتوب میں اس مسئلے سے ’’آگے بڑھنے‘‘ کی اپیل کی ہے۔ انھوں نے بیان کیا: ’’ہم انڈین مسلم کمیونٹی، دستوری ماہرین اور سکیولر تنظیموں کی اس حقیقت کے پیش نظر ناراضگی میں برابر کے شریک ہیں کہ ہمارے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے اپنا فیصلہ طے کرنے میں عقیدہ کو قانون پر مقدم رکھا ہے۔ لیکن جہاں ہمیں اتفاق ہے کہ عدالتی حکمنامہ عدلیہ کے اصولوں کے اعتبار سے ناقص ہے، وہیں ہمارا ماننا ہے کہ ایودھیا تنازع کو زندہ رکھنا ہندوستانی مسلمانوں کو فائدہ نہیں بلکہ نقصان پہنچائے گا۔‘‘
یہ واقعی درست ہے کہ ایک طرف قانون کی حکمرانی کو سربلند رکھنے کی اپیل کے ساتھ سپریم کورٹ سے اس فیصلے پر نظرثانی کیلئے رجوع ہونا انصاف کے کئی بنیادوں پر ضروری ہے، دوسری طرف اگر ہم بابری مسجد مسئلہ کو موضوع بناکر کھیلے گئے سارے سیاسی کھیل کا جائزہ لیں تو واضح ہوجاتا ہے کہ اسی مسئلہ کو استعمال کرتے ہوئے فرقہ وارایت کو پروان چڑھایا گیا ہے۔ یہ بڑا مسئلہ رہا جس نے آر ایس ایس پریوار کو مضبوطی دلائی ہے۔ اس کا ایک اشارہ بی جے پی کی انتخابی طاقت سے ملتا ہے، جو اس مسئلہ کو اٹھانے سے قبل لوک سبھا میں محض دو ایم پیز تھے، اور گزشتہ عام انتخابات میں بڑھ کر 303 ایم پیز ہوگئی۔ یہ درست ہے کہ آر ایس ایس پریوار نے دیگر انتشار پسند مسائل بھی اٹھائے جیسے لوو جہاد، گائے بیف، گھر واپسی وغیرہ۔ یہ بھی درست ہے کہ آر ایس ایس پریوار سماج کو قوم پرستی کے مسئلہ پر منتشر کرتا رہا ہے، بالخصوص مخالف پاکستان بیان بازیوں کے ذریعے۔ لیکن رام مندر اس تمام عرصے میں رام مندر مرکزی مسئلہ برقرار رہا۔
یہ دیکھ سکتے ہیں کہ جہاں قوم مخالف سامراج تحریک کے ذریعے ہندوستانی قوم کے طور پر متحد ہوئی، اس کے برعکس رام مندر مہم کے مختلف مرحلوں نے جذباتی جنون پیدا کیا، جس میں ’مسلم سے نفرت‘ نمایاں ہے۔ بابری مسجد مسئلہ پر جذبات بھڑکنے سے ایسی صورتحال بھی پیدا ہوئی جہاں مسلمانوں کو سماج کے حاشیہ پر ڈال دیا گیا۔
مکتوب ’’مستقبل پر نظر ڈالیں‘‘ کے جذبہ کو سمجھا جاسکتا ہے جب کوئی پیچھے مڑ کر دیکھے کہ رام مندر مہم کی ساری مدت کے دوران کیا کچھ پیش آیا ہے۔ اول یہ کہ سوسائٹی کے بنیادی مسائل جیسے روزی، روٹی، آسرا وغیرہ کو حاشیہ پر ڈال دیا گیا اور عقیدہ سے متعلق مسائل کو سماج میں آگے بڑھا کر پیش کیا گیا۔ یہ بھی عیاں ہے کہ کس طرح ’عقیدہ‘ کو توڑ مروڑ کر سیاسی مقاصد حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ چھ سات دہے قبل تک کسی نے ذکر نہیں کیا کہ لارڈ رام کی پیدائش ٹھیک اس جگہ ہوئی جہاں مسجد کھڑی ہے، اب یہ ہندوؤں کے بڑے گوشے کا ایقان ہوگیا ہے۔ اس مدت کے دوران مذہب کے نام پر تشدد بڑھتا رہا اور مختلف جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمان اس تشدد کے بڑے شکار ہوئے ہیں۔ اس تمام چیزوں کا خلاصہ کرتے ہوئے تجزیہ نگاروں نے یہ بھی بتایا کہ تشدد کے بعد بی جے پی کو انتخابی سطح پر فائدہ حاصل ہوا۔ مسلم برادری کے دکھ اور انھیں الگ تھلگ کئے جانے کا سارا معاملہ بابری مسجد مسئلہ کے متوازی چل رہا ہے، جو سب پر ظاہر ہے۔تشدد اور دیگر مسائل کے نتیجے میں شخصی سلامتی کے علاوہ بہت کچھ اضافہ ہوا ہے۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن نے بھی بتایا کہ کس طرح مسلم برادری کے حالات معاشی اور سماجی سطح پر کافی ابتر ہوگئے ہیں۔ ممتاز شخصیتوں کے مکتوب کے پس پردہ منطق نہایت واضح ہے بشرطیکہ ہم گزشتہ چند دہوں کے دوران پیش آئے واقعات کا جائزہ لیں۔ جہاں آر ایس ایس۔ وی ایچ پی کو مندر کی تعمیر کا کام مل گیا ہے، وہیں ہندو اکثریتی برادری کی زبوں حالی کا کیا ہورہا ہے، جن کے عقیدہ کے نام پر سارا عمل چلایا گیا؟ حالیہ اصغر علی انجینئر میموریل لیکچر میں ممتاز دانشور پربھات پٹنائک نے نشاندہی کی کہ اکثریت میں ہونے سے حقوق بڑھ نہیں جاتے یا اس کے نتیجہ میں اکثریتی برادری کو مادی فوائد حاصل ہوجاتے ہیں۔ اکثریتی کمیونٹی کے غریب تر گوشہ کو اس سیاست میں استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ اس کمیونٹی کا خاص طبقہ اپنے گھروں اور دفاتر کے آسودہ گوشوں میں بیٹھ کر فوائد سے استفادہ کرتا ہے۔
لہٰذا، آج ہمیں دوبارہ مخمصہ شش و پنج کی صورتحال کا سامنا ہے۔ آیا ہمیں کافی نقائص والے سپریم کورٹ فیصلہ پر نظرثانی کی اپیل کے ذریعے حقیقی معنوں میں انصاف کیلئے جدوجہد میں آگے بڑھتے ہوئے اس مسئلہ کو مزید طول دینا چاہئے، یا آیا ہمیں ماضی کا جائزہ لیتے ہوئے دیکھنا چاہئے کہ اس مسئلہ کو زندہ رکھنے سے کسے فائدہ ہورہا ہے؟ کیا ہمیں ضرورت نہیں ہے کہ ہماری توجہ دوبارہ اس سمت میں مرکوز کی جائے جس میں ہمارا جمہوریہ کی شروعات ہوئی، مادی ترقی پر توجہ دی جائے، زرعی مسائل کو حل کیا جائے، بڑھتی بے روزگاری کے خلاف ہنگامی اقدامات کئے جائیں، یقینی بنائیں کہ بچوں کی اسپتالوں میں آکسیجن کی قلت کے سبب موت نہ ہونے پائے، یقینی بنائیں کہ سائنسی رجحان کو بڑھاوا دیا جائے تاکہ قوم کو دوبارہ درست راہ پر گامزن کیا جاسکے جس کا ویژن ان پالیسیوں نے پیش کیا ہے جن کے بل بوتے پر اس ملک کے صنعتی، زرعی اور تعلیمی انفراسٹرکچر کی بنیاد ڈالی گئی۔مکتوب منجانب شبانہ اعظمی، نصیرالدین شاہ، وغیرہ اس مسئلہ پر مباحث میں بروقت شمولیت ہے اور اس کا تمام تر سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
[email protected]