رام کے نام پر مسلمانوں کو گالیاں

   

روش کمار
رام نومی کے بہانے فرقہ پرست طاقتیں کسی نہ کسی طرح اور جارحانہ انداز میں مسلمانوں کو نشانہ بنارہی ہیں ان کے خلاف انتہائی نازیبا الفاظ ، جملے اور نغمے استعمال کئے جارہے ہیں اس کے باوجود مسلمانوں کا صبر و تحمل قابل تعریف ہے ۔ بہرحال اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ رام نومی کے جلوس میں کیا گالی دی جاسکتی ہے ؟ کیا گالیوں سے بھرے نعرے لگائے جاسکتے ہیں ، ایسے گانے بجائے جاسکتے ہیں جن میں گالیاں ہوں ؟ مذہب کے نام پر آستھا ( عقیدہ ) کا سوال بناکر ہنگامہ برپا کرنے والے لوگ اس بات سے پریشان کیوں نہیں ہیں کہ رام نومی کی شوبھا یاترا میں ڈی جے سنگیت میں گالیوں کا استعمال ہورہا ہے ، کیا ہمارے تہوارؤں کی یہی پہچان رہ جائے گی کہ اس کے نام پر جلوس نکلے یا شوبھا یاترا نکلے تو اس میں گالیاں دی جائیں ۔ ممبئی میں رام نومی جلوس میں تشدد سے بھری دھمکیاں دی گئیں ۔ گالیوں سے بھرے نعرے لگائے گئے لوگوں کو کوئی فرق کیوں نہیں پڑا ، صحافی اور ایچ پپ کے مصنف کنال پروہت نے ایک ویڈیو ریکارڈ کیا ہے ایک نہیں بلکہ کنال پروہت نے کئی ویڈیو ریکارڈ کئے ہیں ۔ ممبئی کے سانتاکروز علاقہ سے گذر رہے جلوس میں جو گانے بجائے جارہے تھے جو نعرے بلند کئے جارہے تھے ان میں گالیاں دی جارہی تھیں کیا رام کی شوبھا یاترا میں دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو گالیاں دی جاسکتی ہیں صرف اس لئے کہ گالی دینے والے دھرم کی رکھشا ( مذہب کی حفاظت ) کا جھنڈا اُٹھاکر گھوم رہے ہیں کیونکہ گالی دینے والے اس سیاسی جماعت اور سیاسی اتحاد کے کام آسکتے ہیں جس کی حکومت ہوتی ہے اور اگر نہیں تو پھر حکومت ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کررہی ہے ۔ گالی دے کر کس کی مریادا سے کھلواڑ ہورہا ہے اس بات سے ہندوتوا وادی پریشان کیوں نہیں ہوتے ؟ کیوں خاموشی اختیار کر لیتے ہیں؟ کیا اس لئے کہ ان کے لوگ ہیں ان کے فائدہ کے لوگ ہیں جو پولیس کنال کامرا کے پیچھے لگائی گئی کیوں نہیں اس پولیس کو ان لوگوں کے پیچھے لگایا گیا اور ایکشن لیا گیا ؟ کیا اورنگ زیب کے نام پر رام نومی کے جلوس میں گالیاں دی جاسکتی ہیں ؟ اگر وہ گالیاں مسلمانوں کو دی جائیں تو کیا انہیں منتر کا درجہ ملے گا ؟ رام کا پرامن و سکون روپ ، مریادا روپ کسی کے خلاف کٹر پن کا استعمال نہ کرنے کی تمام مثالیں سب کو اچھی طرح یاد ہیں پھر بھی کسی نے ان لوگوں سے کوئی سوال کیوں نہیں کیا کہ آپ گالی دے کر رام نومی کی شوبھا یاترا کا کیا حال کررہے ہیں ۔ کیا ایسے لوگوں کے بھروسہ دھرم ( مذہب ) کا تحفظ ہونے والا ہے ۔ اتنے خوبصورت رام بھجن ہیں وہ کیوں نہیں بجائے جاتے ان کی جگہوں پر گانوں میں گالیاں بھر کر کیسے بجائے جاسکتی ہیں اور ایسے گانے تیار کئے جاتے ہیں جنہیں کنال نے ہندوتوا اپب کہا ہے مذہب کے رکھشک بن کر اتنے نیتا ٹی وی پر بولنے آجاتے ہیں کہ آپ کو کوئی بھی ایسا نیتا دکھائی دیا جو کہتا ہو کہ ڈی جے کے گانوں میں گالیاں نہیں ہونی چاہئے کیونکہ شوبھا یاترا تو رام کی ہے یہ خاموشی آخر کس کیلئے ہے اور کس کی قیمت پر ہے ؟ کیا ہم اس طرح اپنے تہواروں کو اس قسم کے گالی گلوج کرنے والے لوگوں کے حوالے کردیں گے کتنے گودی چیانلوں پر اس کو لیکر بحث ہوئی کہ رام نومی جیسے خوبصورت تہوار کے ساتھ کھلواڑ ہورہا ہے ۔ جس رام کے حوالے سے سختی اور بے رحمی کے دو لفظ نہیں ملیں گے ان کے جنم دن کے جلوس میں گالیاں دی جارہی ہیں کیا شوبھا یاترائیں ایسی ہی ہوا کریں گی کہ ان میں گالیاں دی جائیں گی اور پھر آپ کہیں گے کہ یہی لوگ ہماری تہذیب و تمدن سے لیکر مذہب کا تحفظ کررہے ہیں ۔ کیا گالی دینے والے نوجوان کسی مزار پر چڑھ کر جھنڈا لہرانے والے نوجوان ہمارے ہندو مذہب کا مسقبل ہیں ۔ ایچ پب ایک کتاب ہے اس کتاب میں صحافی و ادیب کنال پروہت نے ہندو مذہب کے نام پر بنائے گئے تمام گانوں کا جائزہ لیا ہے آپ اس کتاب کو بھی پڑھئے اور ایسے گانوں کو بھی سینئے پتہ چلے گا کہ مذہب کے نام پر دراصل کیسے کیسے لوگوں کا حوصلہ بڑھایا گیا اور اس طرح کے نفرتی گیت لکھے گئے ۔ کنال پروہت کہتے ہیں ’’ آج ان گانوں کی زبان اتنی گندی اور قابل اعتراض ہے اور اتنی بھیانک ہے کہ یہ گانے ہی تشدد کی ایک شکل اختیار کر گئے ہیں اور شائد آپ کو سڑک پر تشدد نہ دکھائے دے لیکن جب آپ ایک معاشرہ کے درمیان جاکر اس معاشرہ کے بارے میں اتنی گندی باتیں کریں یا ان کے بارے میں اتنے بُرے الفاظ اور جملے ادا کریں گانوں کے ذریعہ تب وہ گانا ہی وہ ایک تشدد کا رخ اختیار کر جاتا ہے اور تشدد کی ایک شکل بن جاتا ہے کہیں نہ کہیں ان یاتراؤں میں جو نوجوان شامل ہوتا ہے اس کو مسجد کے سامنے ڈانس کرنے سے اس کو مسجد کے سامنے لاٹھیاں دکھانے سے اور اس کے ہاتھوں میں تلوار دینے سے کہیں اس میں ایک جذبہ ایک احساس پیدا ہوتا ہے کہ شائد اس نے اپنے مذہب کیلئے کچھ کیا ہے اور وہ اپنے مذہب کو بچانے کیلئے وہ کچھ کرپارہا ہے اور اس نے کہیں نہ کہیں دشمن کو ہرانے کی کوشش کی ہے تو اسی لئے جب تک ہمارے تہواروں میں اپنے نوجوانوں کو دشمن کے بارے میں زیادہ اور اپنے مذہب کے بارے میںکم یا پھر الگ الگ بھگوانوں اور ان کی جو اقدار تھیں ان کے جوا صول تھے ان کے بارے میں کم بتاکر ہم دشمن کے بارے میں زیادہ بتانے کی کوشش کریں گے تب تک ہمارے تہواروں میں بس یہ برہمی اور گالیاں آتی رہیں گی یہ میں نے دیکھا ہیکہ شائد اخبارات نے ٹی وی چیانلوں نے یہ مان لیا ہے کہ ان کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر زیادہ کچھ کرنا نہیں ہے تب تک جب تک فساد نہ بھڑکے ، اکثر میڈیا میں ہم نے یہ کمی دیکھی ہے کہ جب تک کوئی دنگا نہ بھڑکے جب تک کوئی لوگ نہ مریں تب تک وہ اس کو مسئلہ نہیں مانیںگی اور یہ آج بھی میں دیکھ رہا ہوں کہ کیونکہ میں نے وہ ویڈیوز پوسٹ کئے تھے لیکن اب صرف دو ہی میڈیا اداروں نے اس پر یا تو کوئی مضمون لکھا ہو یا تو اس پر اور کوئی تحقیقات کی ہو یا اس پر روشنی ڈالنے کی کوئی کوشش کی ہو تو شائد ہم جو اپنے من میں سوچ رہے ہیں کہ فرقہ پرستی کو معمول بنالیا ہے وہی چیز ہمارے ملک کے میڈیا نے بھی کردی ہے ۔ میڈیا نے فرقہ پرستی کو معمول کی ایک چیز بنادی ہے ’’ ڈی جے کا استعمال کس لئے ہورہا ہے کس طرح کے گانے بجائے جارہے ہیں ۔ پولیس کو اب سمجھ میں آنے لگا ہے ۔ پولیس کو پتہ ہے کہ فساد ہوگا تشدد بھڑکے گا تو نقصان اس کا بھی ہوگا اور اس کے جوان بھی متاثر ہوں گے اور ضلع کے عوام بھی ۔ بہار میں رام نومی کے موقع پر 231 ڈی جے ضبط کرنے کی خبر شائع ہوئی ہے ۔ بہار پولیس نے رام نومی کی شوبھا یاترا میں ڈی جے بجانے پر روک لگادی تھی تو بی جے پی نے اُف تک نہیں کیا ۔ اگر بہار میں نتیش کمار آر جے ڈی کے ساتھ ہوتے تو بی جے پی اسے لیکر ہنگامہ برپا کردیتی کہ رام نومی کی شوبھا یاترا میں ڈی جے بجانے اجازت نہیں دی جارہی ہے ۔ مذہب کا حق چلا گیا ہے ۔ گودی میڈیا طوفان برپا کردیتا ۔ پولیس سمجھ گئی ہیکہ ڈی جے کا مقصد کیا ہے اور ڈی جے میں کس طرح کے گانے بجائے جارہے ہیں تاکہ لوگ کسی طرح سے بھڑک جائیں عید اور ہولی کے موقع پر بھی بہار پولیس نے بڑے پیمانے پر ڈی جے پر پابندی عائد کی ۔ ڈی جے نہ بجنے پائے اس کیلئے پولیس نے تیاری کی ۔ کئی پولیس اسٹیشنوں میں شہریوں کی امن کمیٹیوں کے اجلاس بلائے ۔ مقدمات کو سلجھانے سے زیادہ پولیس آج کل ان ہندو رکھشادلوں کو سنبھالنے میں مصروف ہے ۔ طرح طرح کے ہند رکھشا دل بنائے ہیں یہ حال کردیا ان تنظیموں نے ہر تہوار کا ، عید ، رام نومی ، ہولی اور درگا پوجا تناؤ پیدا کرنے کے ذرائع بن کر رہ گئے ہیں ۔ ضلع ضلع میں ہندو رکھشا کے نام پر تمام طرح کی تنظیمیں ہیں ان پر نظر رکھنے کیلئے پولیس کو دن رات کام کرنا پڑتا ہے کئی مقامات پر پولیس ان تنظیموں کا حوصلہ بھی بڑھاتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ آپ نے ممبئی میں دیکھا گالیاں دی جارہی تھیں شوبھا یاترا میں جنہوں نے رام نومی کا اپواس کیا ہے وہ کسی کو گالی کیسے دے سکتے ہیں ۔ کانپور میں بھی پولیس نے ڈی جے بند کرایا تو پولیس کے خلاف احتجاج ہونے لگا ۔ اخبارات نے یہ نہیں لکھا کہ کس طرح کے گانے بج رہے تھے ۔ اخبار کی ہیڈ لائن میں کبھی انہیں رام بھگت لکھا جاتا ہے تو کبھی لکھا جاتا ہے کہ ہندو سنگھٹنوں کا ہنگامہ ، بہار میں بھی کئی مقامات پر ڈی جے بند کروانے کی خبریں شائع ہوئی ہیں ۔ وہاں بھی کئی مقامات پر پولیس سے جھڑپ ہوگئی ان معاملوں کے دوران بہار کے ویشالی میں ڈی جے پر پابندی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ۔ ہندو ایکتا بل نے حاجی پور کے ایک چوک پر ٹریفک روک دی ۔ پولیس نے ڈی جے ضبط کر لیا تھا ۔ تہواروں کے آس پاس آپ پولیس والوں کی حالت پر غور کیجئے ان کی حالت بہت خراب ہوتی ہے دن رات انہیں گشت لگانی پڑتی ہے کہ ان کے علاقہ میں تشدد پھوٹ نہ پڑے تشدد بھڑکانے کی کون کوشش کررہا ہے پولیس کو ٹھیک ٹھیک معلوم ہے ۔ اگر ان لوگوں کے سروں پر حکمراں جماعت کا ہاتھ نہیں ہوتا تو پولیس منٹوں میں قابو پالیتی ۔