راہول کیلئے بہترین موقع۔ مہاراشٹرا میں پدیاترا

   

راج دیپ سردیسائی
راہول گاندھی ہونا آسان نہیں ہوسکتا ہے۔ وہ نہ صرف موروثی شخص ہیں بلکہ وہ اس معاملے میں پانچویں نسل کا توارث رکھتے ہیں۔ ٹھیک ایک صدی قبل کی بات ہے جب موتی لعل نہرو نے صدر کانگریس کی حیثیت سے جائزہ حاصل کیا تھا اور وہ ماضی کا حصہ ہے، اس کے تعلق سے کچھ نہیں کیا جاسکتا، اور اب اسے زیرغور لانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اب جبکہ ایک اور کراری لوک سبھا شکست ہوئی، راہول کا مستعفی ہونا اُصولی اقدام ہے، اور پھر وہی معروف پہیلی زیرگشت ہے، ’’ہم نہرو۔ گاندھی قیادت کے بغیر کام نہیں کرسکتے ہیں‘‘۔ گزشتہ 50 سال میں دو اَدوار جب پارٹی کی باگ ڈور نہرو۔ گاندھی فیملی ممبر کے علاوہ کسی نے سنبھالی، غیریقینی کیفیت کے دور رہے۔ اول، جب نرسمہا راؤ 1991ء اور 1996ء کے درمیان انچارج تھے اور تب جب فیملی کے قدیم وفادار سیتارام کیسری پر اعلیٰ ذمہ داری ڈال دی گئی۔ پھر اس کے بعد سونیا گاندھی کی صدارت چلی اور جس کے اختتام پر مسز گاندھی طویل ترین عرصہ تک صدر کانگریس رہنے والی شخصیت بن گئیں۔ لیکن جہاں سونیا گاندھی نے اعلیٰ سطح پر استحکام اور تسلسل کا کلیدی پہلو فراہم کیا، کیا انھوں نے کانگریس کو انتخابی طور پر کامیاب بنایا؟ پوری طرح نہیں۔ 1999ء میں جب انھوں نے کانگریس کی پہلی مرتبہ کسی لوک سبھا الیکشن میں قیادت کی 114 نشستیں حاصل ہونے سے لے کر 2014ء میں جب وہ بدستور پارٹی سربراہ تھیں، پارٹی کو نہایت مایوس کن 44 سیٹیں ملیں۔ مسز گاندھی کانگریس میں بتدریج انحطاط کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔ ایک استثنا 2009ء کا ہے اور یہاں بھی کانگریس کو بی جے پی کی ڈھلتی عمر والے ایل کے اڈوانی کو وزارت عظمیٰ امیدوار کے طور پیش کرنے کی ناقص حکمت عملی کا فائدہ حاصل ہوا حالانکہ منموہن سنگھ کو ہند۔ امریکہ نیوکلیر معاملت پر دکھائی گئی سختی کا اُلٹا اثر پڑا۔
سچائی یہ ہے کہ کانگریس اب زائد از دو دہوں سے بتدریج انحطاط کی حالت میں ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اگر اندرا گاندھی کو 1984ء میں دردناک انداز میں قتل نہ کیا جاتا تو پارٹی وسط 1980ء دہے میں ہی اپنی گرفت کھو دیتی۔ نظریاتی تحلیل، جوں کی توں قیادت، تنظیمی پیوستگی کا فقدان، تحکم پسند اعلیٰ کمان کلچر اور جوش و خروش سے عاری کیڈر کے درمیان ربط نہ ہونا… یہ تمام نے کانگریس کے زوال میں اپنا حصہ ادا کیا ہے۔ اور اس زوال کے ساتھ ہی بی جے پی کا طاقتور ہندوتوا زیراثر الیکشن مشین کی حیثیت سے عروج انحطاط میں تیزی لائی ہے۔ ہوسکتا ہے راہول گاندھی کا فطری طور پر موروثی شخص ہونا مسئلہ کا حصہ ہے۔ آخر کو راہول گاندھی کی صدر کانگریس کی حیثیت سے موجودگی مودی پروپگنڈہ مشین کو ’کامدار‘ بمقابلہ ’نامدار‘ کی بات کو عمدگی سے پھیلانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اس تناظر میں 2019ء کی انتخابی مہم سے ایک امیج نمایاں طور پر ابھرتا ہے: راہول گاندھی کا امیٹھی میں اپنی نامزدگی داخل کرنے کیلئے بہن پرینکا، بہنوئی رابرٹ وڈرا اور ان کے بچوں کے ہمراہ موٹرقافلے میں جانا۔ کیا مزید کوئی واضح مثال ہوسکتی ہے کہ تحریک آزادی کی پارٹی کس طرح اب ایسی پارٹی بن گئی جو ایک فیملی کے اطراف گھومتی ہے؟ اور اس کے باوجود حقیقت ہے کہ افراد سے کہیں آگے تک کانگریس کا حال شناخت کے زیادہ گہرے بحران کی طرف چلا جاتا ہے۔ کانگریس کی آج واقعی کیا وقعت رہ گئی ہے؟ کانگریس بدستور طاقتور برانڈ ہے جس میں بڑے بڑے نام ہیں لیکن ہر برانڈ کو بدلتے وقت کے ساتھ نئی نئی ترکیب کی ضرورت پڑتی ہے۔ کانگریس برانڈ کو نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ وہ اقتدار کی آمرانہ پارٹی سے اُبھرنے میں ناکام ہوئی اور زیادہ مضبوط اور جمہوری تنظیم میں ڈھل نہ پائی، ایسی پارٹی جو نسل و خاندان کے مقابل میرٹ کیلئے گنجائش پیدا کرتی ہے، اور بڑے پیمانے پر ایجی ٹیشنس میں ورکر کی عظیم تر شراکت کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ہاں، یہ ممکن ہے کہ گاندھی۔ نہرو قیادت کے بغیر کانگریس مزید کمزور پڑسکتی ہے۔ لیکن یہ نہ بھولیں کہ داخلی طور پر کمزوری کا عمل تو طویل عرصے سے چل رہا ہے۔ مہاراشٹرا میں شرد پوار، بنگال میں ممتا بنرجی اور اب آندھرا میں جگن موہن ریڈی، علاقائی کانگریس قائدین جو مادر برانڈ سے علحدگی کے بعد بھی پھلنے پھولنے میں کامیاب ہوئے، ایسی فہرست طویل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ راہول گاندھی کا اس مرحلے پر استعفے کا فیصلہ کرنا ہرگز کوئی خراب چیز نہیں ہے۔ اس سے راہول گاندھی اور کانگریس دونوں کو موقع مل سکتا ہے کہ خود کو دوبارہ اُبھاریں: راہول زیادہ ترقی پسند خاندانی شخص بن کر ابھریں گے جو مراعات کے اطمینان بخش حلقے کے باہر نکل کر عوامی سیاستدان بننے کیلئے باعزت عہدہ کو قربان کرنے تیار ہے؛ اور کانگریس ایسی پارٹی بن سکتی ہے جو کلیدی علاقوں میں امکانی قائدین کی شناخت کرنے اور انھیں بااختیار بنانے کے تجربے کی کوشش کرتی ہے۔ شاید انھیں مہاراشٹرا سے تجربہ شروع کرنا چاہئے، جو کبھی کانگریس کا قلعہ تھا لیکن اب زعفرانی سمندر کا بڑھتا رنگ دکھائی دے رہا ہے۔ اس ریاست میں اکٹوبر میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں جبکہ کئی حصوں میں خشک سال کا بھوت پھیلتا جارہا ہے۔ کیوں نہ راہول گاندھی ساری ریاست میں 100 روزہ پدیاترا شروع کریں تاکہ لٹینس دہلی میں اٹکے رہنے کے بجائے زرعی مصیبت کے کلیدی مسئلے سے خود کی پوری طرح شناخت بنائیں۔ یاد رکھئے کہ 3500 کیلومیٹر کی پدیاترا نے جگن ریڈی کے سیاسی کریئر میں ڈرامائی طور پر بدلاؤ لایا۔ کیا راہول جگن جیسا کرتے ہوئے بقا کا چیلنج قبول کرسکتے ہیں یا وہ شیکسپیئر کے سانحہ سے دوچار ہیرو کی طرح مایوسی پر اکتفا کرلیں گے۔ یقین نہیں کہ وہ واقعی کیا کرنا چاہتے ہیں، اس وجہ سے کانگریس بحران مزید شدت ہی اختیار کررہا ہے۔
اختتامی تبصرہ : کانگریس شکست کے ایک روز بعد ایک سینئر کانگریس لیڈر نے نجی گفتگو میں اعتراف کیا کہ راہول گاندھی ، مودی چیلنج کا اندازہ لگانے میں ناکام رہے، جس کیلئے زیادہ اچھی منصوبہ بند انتخابی حکمت عملی درکار تھی۔ اگلے روز وہ لیڈر اس قطار میں اول نظر آیا جو راہول گاندھی پر مستعفی ہونے کیلئے زور دے رہی تھی!
rajdeepsardesai52@gmail.com