روش کمار
کانگریس لیڈر راہول گاندھی‘ وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی حکومت کی ناکامیوں کو منظرِ عام پر لانے میں کتنے کامیاب رہے اس کا جواب تو وہ اور کانگریس قائدین اچھی طرح دے سکتے ہیں لیکن ایک بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ راہول گاندھی سے مودی اور بی جے پی دونوں پریشان ہیں‘ اب ان کے خوف کا یہ حال ہوگیا ہے کہ بی جے پی وزراء ، قائدین اور کارکن بھی راہول گاندھی کو قتل کی دھمکیاں دینے لگے ہیں، اس قسم کی دھمکیوں سے ان کی بوکھلاہٹ کا اندازہ ہوتا ہے۔ جب سے راہول گاندھی نے قائد اپوزیشن کا عہدہ سنبھالا تب سے وہ بی جے پی حکومت اور مودی کے خلاف جارحانہ موقف اختیار کئے ہوئے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ملک و بیرون ملک وہ ببانگ دہل مودی جی اور ان کی حکومت کوشدید تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں اور ان پر سنگین الزامات عائد کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے یہ الزام عائد کیا کہ چین نے لداخ میں 4000 مربع کلو میٹر علاقہ پر قبضہ کیا ہے اور یہ علاقہ دارالحکومت دہلی کے رقبہ کے مساوی ہے۔ راہول گاندھی نے چین کی دراندازی اور مودی حکومت کی مجرمانہ غفلت پر تشویش کا اظہار کیا تاہم مودی حکومت کے کسی ذمہ دار نے یا پھر بی جے پی لیڈران میں سے کسی نے بھی راہول گاندھی کے اس الزام کی تردید نہیں کی، اس کا جواب نہیں دیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مسئلہ پر مودی حکومت کی خاموشی کو کیا سجھا جائے۔ ویسے بھی اس طرح کے الزامات عائد کرنے والے راہول گاندھی کوئی پہلے لیڈر نہیں ہیں اس سے قبل خود بی جے پی کے سابق رکن راجیہ سبھا ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے بھی ایسا ہی الزام عائد کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی کو للکارا تھا۔
بہر حال بی جے پی قائدین راہول گاندھی کو جان سے ماردینے کی کھلی دھمکیاں دینے لگے ہیں ۔ اس سلسلہ میں بی جے پی کے ایک لیڈر کا ویڈیو بہت زیادہ وائرل ہورہا ہے جس میں وہ راہول گاندھی کو دھمکی دیتے ہوئے کہتے ہیں: ’’راہول گاندھی باز آجا ورنہ تیرا بھی وہ حال ہوگا جو تیری دادی کا ہوا تھا ‘‘ ۔ واضح رہے کہ یہ دھمکی مودی حکومت میں شامل ایک مرکزی وزیر کی ہے۔ اس بیان پر کانگریس قائدین بالخصوص سچن پائلٹ نے تشویش ظاہر کی اور کہا کہ اس طرح کی دھمکیاں دینا ایک مرکزی وزیر کو زیب نہیں دیتا انہیں معذرت خواہی کرنی چاہیئے اور ان کی پارٹی کو معذرت خواہی کرنی چاہیئے کیونکہ وہ مرکزی وزیر ہیں اس لئے مرکزی حکومت کو معافی مانگنی چاہیئے۔ اپوزیشن لیڈر کے خلاف اس قدر دھمکی آمیز زبان کا استعمال کرنا کسی بھی طرح درست نہیں ہے۔
کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ابھیشک منو سنگھوی نے اس بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ بدبختانہ اور افسوسناک بات ہے، سازش نما ماحول ہے، سوچ سمجھ کر ایسا ماحول پیدا کیا جارہا ہے اور راہول گاندھی کی جان و مال کو خطرہ میں ڈالنے کیلئے کی گئی ایک منصوبہ بند سازش ہے اور یہ اُکسانے کی سیاست ہے۔ راہول گاندھی کو جان سے مارنے کی دھمکی دی جارہی ہے تو کوئی انہیں نمبر ون دہشت گرد کہہ رہا ہے۔ بی جے پی کے سابق رکن پارلیمنٹ نے کہا ہے کہ راہول گاندھی کا حال بھی ان کی دادی کی طرح ہوگا۔ کیا یہ جان سے مارنے کی دھمکی نہیں ۔ مودی حکومت کے ایک وزیر راہول گاندھی کو نمبر ون دہشت گرد بتارہے ہیں۔ ٹاملناڈو کے چیف منسٹر ایم کے اسٹالن نے راہول گاندھی کو دھمکی دیئے جانے اور دہشت گرد کہے جانے پر حیرانی جتائی ہے اور اس قسم کی دھمکیوں کی مذمت کی ہے۔ مرکزی حکومت پر زور دیا ہے کہ راہول گاندھی کی سیکورٹی سخت کی جائے۔ پارلیمنٹ میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ اسپیکر سے لیکر بی جے پی کے ارکان، مودی حکومت کے وزیر بھی قائد اپوزیشن راہول گاندھی کو کیسا ہونا چاہیئے، کیسے بیٹھنا چاہیئے، کیا بولنا چاہیئے، بڑی ذمہ داری کا عہدہ ہوتا ہے، بار بار بتاتے رہے لیکن راہول گاندھی کو یاد دلاتے دلاتے ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی خود بھول گئی ہے کہ قائد اپوزیشن کو نمبر ون دہشت گرد کہنا صحیح نہیں ہے اور جان سے مارنے کی دھمکی بھی ٹھیک نہیں۔
ایسا کیوں ہورہا ہے ہم اس پر بات کریں گے۔ کیونکہ کانگریس نے ان دھمکیوں کو لیکر احتجاج کیا ، اور آپ کو یہ بھی یاد دلائیں گے کہ کیسے ان 10 برسوں کے دوران وزیر اعظم مودی کی ذراسی بھی نکتہ چینی کرنے پر شہریوں اور صحافیوں کو جیلوں میں ٹھونسا جاتا رہا ہے، یہ ہے ترویندر سنگھ ماروا سابق رکن پارلیمنٹ ہیںاور بی جے پی کے لیڈر ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ راہول گاندھی باز آجا نہیں تو آنے والے ٹائم میں تیرا وہی حال ہوگا جو تیری دادی کاہوا۔ یہ تنقید اور توہین بھی نہیں ہے جو لیڈران ایک دوسرے کی کرتے ہیں۔ اس بیان میں سیدھے سیدھے جان سے ماردینے کی دھمکی کی جھلک ملتی ہے۔ بی جے پی کے لیڈر ترویندر سنگھ ماروا کے اس بیان کے کئی دن گذر جانے کے بعد بھی ان کے خلاف کسی بھی طرح کی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ اتنا کافی تھا کہ وزیر اعظم مودی یا وزیر داخلہ امیت شاہ اس بیان کی مذمت کرتے، انہوں نے نہیں کی‘ قانونی کارروائی تو کیا ہی ہوگی۔
وزیر اعظم اکثر اپنی تقاریر میں اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ انہیں گالیاں دی جارہی ہیں اور وہ کام کئے جارہے ہیں۔ سو دن پورے ہونے پر بھی انہوں نے ایسا بیان دیا لیکن جب وہی کام ان کے پارٹی لیڈر کرتے ہیں تب وزیر اعظم خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ وزیر اعظم نے اپنے ایک حالیہ خطاب میں کچھ یوں کہا تھا : ’’ اور آپ نے دیکھا ہوگا پچھلے سو دن میں نہ جانے کیسی کیسی باتیں ہونے لگیں، اس دوران میرا مذاق اُڑانے لگے ، مودی کا مضحکہ اُڑانے لگے، انواع و اقسام کے دلائل دیتے رہے، مزہ لیتے تھے اور لوگ بھی حیران تھے کہ مودی کیا کررہا ہے کیوں چُپ ہے اتنا مذاق اُڑایا جارہا ہے، اتنی بے عزتی ہورہی ہے لیکن میرے گجرات کے بھائیو، بہنو، یہ سردار پٹیل کی بھومی سے پیدا ہوا بیٹا ہے، ہر مذاق ہر مضحکہ ہر بے عزتی کو ہنستے ہوئے ایک عہد کرتے ہوئے سو دن میں نے آپ کی ترقی کیلئے، ملک کے مفاد میں منصوبے بنانے اور فیصلہ لینے میں گذارے‘‘ ۔لیکن یہ سلسلہ آخر ختم کیسے ہوگا،اب تو تنقید کو گالی کہنے کا چلن عام ہوگیا ہے اور یہاں دھمکی دی جارہی ہے اور اس کے تئیں اتنی غیر حساسیت ہے۔ اتنا طئے ہے کہ یہی باتیں کانگریس کے کسی لیڈر نے کی ہوتی تو اب تک اُسے جیل میں ٹھونس دیا گیا ہوتا۔
گجرات کے رکن اسمبلی جگنیش میوانی کو اس لئے گرفتار کیا گیا کیونکہ جگنیش نے اپنے ٹوئیٹ لکھ دیا کہ مودی‘ گوڈسے کی پوجا کرتے ہیں ساتھ ہی جگنیش نے یہ بھی کہا کہ گجرات فسادات کیلئے مودی معذرت خواہی کریں۔ اسی بات پر جگنیش میوانی کو لاء اینڈ آرڈر میں خلل پیدا کرنے کے جرم میں جیل بھیج دیا گیا۔ آسام میں شکایت درج ہوئی اور آسام پولیس انہیں گرفتار کرنے گجرات آگئی۔ جنگیش میوانی اب کانگریس میں ہیں۔ ترویندر سنگھ ماروا اور رونیت سنگھ بٹو نے بیان دیا ہے دہلی پولیس مرکزی حکومت کے تحت کام کرتی ہے لیکن راہول گاندھی کو جان سے مارڈالنے کی دھمکیاں دینے والوں کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی جبکہ وزیراعظم کو تنقید کا نشانہ بنانے پر یو پی کی پولیس چینائی چلی گئی اور آسام کی پولیس دہلی اور گجرات آکر گرفتار کرکے لے گئی۔
مارچ 2023 میں دہلی میں ایک پوسٹر لگایا گیا تھا جس پر لکھا تھا ’’ مودی ہٹاؤ دیش بچاؤ ‘‘ اس میں کیا ایسا تھا کہ اس کے خلاف44 ایف آئی آر درج ہوگئیں اور چار لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ یہی نہیں جو 2000 پوسٹرس لگائے گئے تھے ان تمام کو نکال دیا گیا۔’ راہول گاندھی کا حال دادی جیسا ہوگا ‘ یا وہ نمبر ون دہشت گرد ہیں ‘ اس قسم کے بیانات پر مرکزی حکومت کو پولیس اور ایف آئی آر کی یاد کیوں نہیں آرہی ہے۔ بی جے پی کے لیڈر ماروا کا یہ بیان کہ اندرا گاندھی جیسا حال راہول گاندھی کا ہوجائے گا بے حد سنگین ہے اس کے ذریعہ کارکنوں کو یا کسی جنونی کو ایساپُرتشدد واقعہ رونما کرنے کا اشارہ دیا جارہا ہے۔ یہ خیال جنونیوں کے ذہنوں میں ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے اسی لئے اس پر روک لگانے کی ضرورت ہے اور قانونی کارروائی ہونی چاہیئے۔ بات ترویندر سنگھ ماروا تک ہی نہیں رُکی ہے۔ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ہیں مرکزی وزیر ہیں رونیت سنگھ بٹو وہ بھی اس میں شامل ہوگئے ہیں وہ مرکزی مملکتی وزیر ہیں انہوں نے راہول گاندھی کو نمبر ون دہشت گرد کہہ دیا ہے۔ شیوسینا شنڈے کے رکن اسمبلی سنجے گائیکواڈ اور یو پی حکومت کے وزیر رگھوراج سنگھ وہ بھی اس دوڑ میں شامل ہوچکے ہیں۔ ان باتوں کو لیکر کانگریس صدر ملکارجن کھرگے نے وزیر اعظم نریندر مودی کو مکتوب بھی لکھا ہے۔
رونیت سنگھ بٹو کو راہول گاندھی نے آگے بڑھایا۔ 2021 میں دو ماہ کیلئے لوک سبھا میں کانگریس کے لیڈر بھی بنائے گئے لیکن اب وہی رونیت سنگھ بٹوراہول گاندھی کو دہشت گرد کہہ رہے ہیں۔صفائی دی تو اس میں بھی دہرادیا کہ دہشت گرد نہیں کہا جائے گا تو کیا کہا جائے گا۔ رونیت سنگھ بٹو کی دلیل ہے کہ گریتونت سنگھ پنوں نے راہول گاندھی کے بیان کی تائید کردی تو راہول گاندھی کو دہشت گرد کیسے کہا جائے گا۔ پنوں اپنے آپ کو ہیرو ثابت کرنے کیلئے کسی کے بھی بیان کا استعمال کرسکتا ہے لیکن کیا اسی وجہ سے مرکزی وزیر قائداپوزیشن کو دہشت گرد کہیں گے۔ بٹو بھول گئے کہ کسان جب دہلی آئے تو انہیں دہشت گرد کہا گیا، کسانوں نے باقاعدہ پوسٹر لگایا تھا کہ ہم دہشت گرد نہیں ہیں۔ امریکی محکمہ انصاف نے ایک مکتوب میں یہ جانکاری دی کہ ہندوستان میں برسر خدمت ایک سرکاری عہدہ دار نے ایک ہندوستانی شہری کو پیسے دے کر پنون کے قتل کی سپاری دی تھی۔ اس معاملہ میں محکمہ انصاف نے باقاعدہ فوجداری مقدمہ درج کیا اور ایف بی آئی اس معاملہ میں جانچ کررہی ہے۔ وائٹ ہاوز کی جانب سے کہا گیا کہ ہندوستان امریکی الزامات کو سنجیدگی سے لے رہا ہے۔ ہندوستان کی جانب سے کہا گیا کہ ہم ان الزامات کی جانچ کررہے ہیں۔ اس معاملہ میں امریکہ ایک مبینہ ملزم نکھیل گپتا کو جون 2024 میں چیک جمہوریہ سے گرفتار کیا تھا اس کیلئے بٹو امریکہ کو بھی وہی کہہ سکتے ہیں جو راہول کو کہہ رہے ہیں۔