راہول گاندھی کی ’’بھارت جوڑو یاترا ‘‘ : ایک نئی اُمید

   

عامر علی خاں
گاندھی خاندان کے چشم و چراغ راہول گاندھی اور ان کی ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ یہ یاترا جہاں حکمراں بی جے پی کیلئے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے ، وہیں عام ہندوستانیوں کیلئے ایک اُمید کی کرن بن گئی ہے۔ راہول گاندھی یومیہ 20 تا 25 کیلومیٹر کا سفر پیدل طئے کرتے ہوئے عوام بالخصوص طلبہ، نوجوانوں اور خواتین کو یہ احساس رہے ہیں کہ آزادی کے تقریباً 70 برسوں کے دوران ہندوستان نے زندگی کے ہر شعبہ میں جو ترقی کی اور کامیابی کے جھنڈے گاڑھے، عالمی سطح پر اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور اس کیلئے کانگریس نے پنڈت جواہر لال نہرو سے لے کر ڈاکٹر منموہن سنگھ تک ہندوستان کے نظریہ ’’کثرت میں وحدت‘‘ باالفاظ دیگر حقیقی ہندوستانیت (Indianness) کی راہ اپنائی اور ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو مضبوط و مستحکم بنانے کے عمل کو اہمیت دی۔ نتیجہ میں ہندوستان ترقی کرتا گیا لیکن گزشتہ 8 برسوں کے دوران بقول راہول گاندھی بی جے پی اور اس کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس نے 70 سال کی کامیابیوں کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ خطرناک سطح پر پہنچ چکی مہنگائی، بیروزگاری کی بڑھتی شرح ، ہجومی تشدد کے نام پر اقلیتی نوجوانوں پر قاتلانہ حملے، ان کے قتل، دلتوں کے ساتھ ناروا سلوک، دلت لڑکیوں و خواتین کی عصمت ریزی کے بڑھتے واقعات، مسلمانوں اور عیسائیوں سے امتیازی سلوک، ان کے دستوری حقوق کی پامالی، لوجہاد، لینڈ جہاد، یو پی ایس سی جہاد، فوڈ جہاد، حجاب کے خلاف مہم مسلم تاجرین اور عام مسلمانوں کے بائیکاٹ کی اپیلیں، سی اے اے کی منظوری اور اس قانون کے ذریعہ جان بوجھ کر مسلمانوں کو نظرانداز کئے جانا اور اب جبکہ گجرات اسمبلی انتخابات کی تواریخ کا اعلان کردیا گیا ہے، وہاں یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کا اعلان ، نریندر مودی کی زیرقیادت بی جے پی حکومت کی تخریبی و فرقہ وارانہ سیاست کے منہ بولتے ثبوت ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 8 برسوں میں مذہب کے نام پر ہندوستان کو تقسیم کرکے ان طاقتوں نے اپنا اُلو سیدھا کیا اور بیچارے بھولے بھالے عوام کو بیوقوف بنایا۔ عوام نے جب پٹرول، ڈیزل اور پکوان گیاس کی قیمتوں میں اضافہ پر آواز اٹھانے کی کوشش کی تب انہیں یہ بتاکر خاموش کیا گیا کہ ہندوتوا خطرہ میں ہے۔ جب لوگوں نے اشیائے ضروریہ کی آسمان کو چھوتی قیمتوں پر اعتراض کیا تب انہیں یہ کہہ کر ڈرایا گیا کہ ملک میں مسلمانوں کی آبادی میں بڑی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور مسلمانوں کی آبادی میں اسی رفتار سے اضافہ ہوتا رہے گا تو پھر بہت جلد ہندوستان میں مسلمان اسلامی حکومت قائم کردیں گے (جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ملک کی 136 کروڑ آبادی میں مسلمانوں کی آبادی 20 کروڑ ہے اور دوسرے مذاہب کو اس آبادی میں شمار نہ کیا جائے تو ہندوؤںکی آبادی جملہ آبادی کا کم از کم 80% حصہ بنتا ہے، کیا ایسے میں ہندوستان جیسے کثیر مذاہب اور کثیر تہذیبی ملک میں مسلمانوں کی حکومت بن سکتی ہے؟ یہ سب بھولے بھالے آبنائے وطن کو گمراہ کرکے ان کے مذہبی جذبات کا استحصال کرنے کے سواء کچھ نہیں) 8 برسوں کے دوران فرقہ پرستی میں جو خطرناک حد تک اضافہ ہوا، اس پر بیشتر عالمی اداروں اور حکومتوں نے تنقید کی۔ سابق صدر امریکہ براک حسین اوباما سے لے کر سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ انٹونیو گوٹیرس نے مودی حکومت کو اقلیتوں کے تئیں اس کی ذمہ داریوں کا نہ صرف احساس دلایا بلکہ یہ بھی واضح کیا کہ بی جے پی حکومت کو امن و امان، پیار و محبت، آپسی بھائی چارگی، انسانیت نوازی اور عدم تشدد کے گاندھیائی طریقہ کار پر چلنا چاہئے۔ 8 برسوں میں ہندوستانی عوام کو بے شمار مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ عوام کے ذہنوں کو فرقہ پرستی کے زہر سے آلودہ کرنے کے معاملے میں انسان اور انسانیت کے دشمن ’’کورونا وائرس‘‘ کو بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا گیا۔ گودی میڈیا کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کیلئے یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ ملک میں کورونا کے پھیلاؤ کیلئے تبلیغی جماعت اور اس کے اجتماعات ذمہ دار ہیں جبکہ حقیقت کچھ اور تھی۔ ہمارے ملک میں کورونا سے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 5 لاکھ سے زائد اموات ہوئیں (یہ اور بات ہے کہ عالمی اداروں، تنظیموں اور میڈیا کے مطابق کورونا وائرس کی وباء سے 5 لاکھ نہیں بلکہ 40 تا 70 لاکھ ہندوستانی اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے) لاکھوں گھر اور خاندان تباہ و برباد ہوگئے۔ لاکھوں کی تعداد میں خواتین بیوہ ہوئیں اور بچے یتیم ہوئے اور ماؤں کی گودیں اُجڑ گئیں۔ کورونا کی اس تباہی و بربادی کیلئے اصل میں حکومت کی ناقص و غیردانشمندانہ پالیسیاں ذمہ دار ہیں۔ ایک وائرس کو بھی مذہبی شکل دینے کی کوشش کی گئی، اس سے بڑھ کر شرم کی بات اور کیا ہوگی کہ آپ ہر مسئلہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ راہول گاندھی کی ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ ایک ایسے وقت نکل پڑی ہے جب ملک حقیقت میں ایک خطرناک دور سے گذر رہا ہے۔ تعصب و جانبداری کا یہ حال ہے کہ گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت ریزی کرنے اور اس کی 3 سالہ بیٹی کو انتہائی بہیمانہ انداز میں شہید اور دیگر ارکان خاندان کا قتل کرنے والے زانیوں اور قاتلوں کو سزائیں معاف کرکے انہیں جیل سے رہا کردیا گیا۔ زانیوں، قاتلوں کی سزائیں صرف ان کے مذاہب کی بنیاد پر اور سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے معاف کرنا خود ایک سنگین جرم ہے۔ اگر زانیوں و قاتلوں کو آپ معاف کردیں گے تو پھر ملک میں ’’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘‘ کا جو نعرہ دیا گیا ہے، اسے ختم کردینا چاہئے۔ راہول گاندھی اپنی یاترا کے ذریعہ جہاں بے حس و حرکت پڑی، ملک کی قدیم ترین پارٹی ’’کانگریس‘‘ میں ایک نئی جان ڈالنے میں کامیاب ہوئے، وہیں پارٹی کارکنوں میں ایک نیا جوش و جذبہ نئی توانائی پیدا کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے۔راہول گاندھی کے مطابق ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ یقینا بی جے پی، آر ایس ایس اور اس قبیل کی دوسری تنظیموں، فرقہ وارانہ سیاسی اور ملک دشمن منصوبوں کو بے نقاب کررہی ہے۔ راہول گاندھی کو اس یاترا کے دوران جو عوامی تائید حاصل ہوئی، وہ بی جے پی خیموں میں ہلچل مچانے میں کامیاب رہی ۔ عوام کو اس یاترا کے ذریعہ اچھی طرح اندازہ ہونے لگا ہے کہ ملک میں ہر شعبہ متاثر ہوا ہے۔ بیرونی زر مبادلہ کے ذخائر میں اس قدر کمی آگئی کہ وہ 533ارب ڈالرس تک پہنچ گئے۔ اگر یہی حال رہا تو آنے والے دنوں میں معیشت مزید کمزور ہوگی۔ ڈالر کے مقابل روپیہ کی قدر میں مزید گراوٹ آئے گی اور یوروپی ممالک ، روس ۔ یوکرین جنگ کے باعث جس کساد بازاری اور معاشی انحطاط کا سامنا کررہے ہیں۔ مودی حکومت میں ہندوستان بھی اس صورتحال کا سامنا کرنے کے قریب آگیا ہے۔راہول گاندھی کے بموجب مودی حکومت غربت پر بھی قابو پانے میں ناکام رہی۔ وہ صرف اپنے صنعت کار دوستوں کے مفاد میں کام کرتی رہی اور یہ صورتحال ’’ہم دو ہمارے دو‘‘ (مودی ۔ امیت شاہ اور امبانی ۔ اڈانی) کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ہاں غربت ، بھوک و افلاس کے عالمی عشاریہ میں بھی ہندوستان کی حالت نیپال، بنگلہ دیش جیسے غریب ملکوں سے بھی ابتر ہوگئی ہے۔ اس کا کریڈٹ بھی مودی حکومت کو جاتا ہے۔ بہرحال راہول گاندھی کی ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ بے شک بی جے پی کے فرقہ وارانہ ایجنڈہ کا موثر جواب ہے۔ اس یاترا کے دوران انہوں نے ثابت کردیا کہ بی جے پی قائدین انہیں لاکھ طنز و طعنوں کا نشانہ بنائیں اور ’’پپو‘‘ جیسے خطاب سے نوازیں، انہوں نے ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ کے ذریعہ بی جے پی کے فرقہ وارانہ ایجنڈے پر کاری ضرب لگائی ہے۔ یاترا کے دوران راہول گاندھی ایسا لگ رہا ہے کہ ایک مختلف انداز میں نظر آرہے ہیں۔ سنجیدگی ان کے چہرے سے عیاں ہیں۔ ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ کے ذریعہ راہول گاندھی نے تاحال 3500 کیلومیٹر میں سے 1500کیلومیٹر کا فاصلے طئے کرلیا اور ان کے ہر بڑھتے قدم کے ساتھ بی جے پی کی پریشانی بھی بڑھ رہی ہے۔ پانچ ماہ میں یہ یاترا اختتام کو پہنچے گی۔ یہ یاترا بے شک ملک کی سیاست میں ایک اہم موڑ ثابت ہوگی۔ ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ کے دوران ایک بات جو خاص طور پر محسوس کی گئی، وہ ہے کہ راہول گاندھی نے واضح طور پر کہہ دیا کہ میڈیا، عدلیہ اور بیورو کریسی میں حکومت کی مداخلت بڑھ گئی ہے اور تمام سرکاری ایجنسیاں حکومت کے اشاروں پر کام کررہی ہیں۔ راہول گاندھی کی یاترا نے عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ مودی حکومت نے ان کا جینا محال کردیا ہے اور عوامی مسائل حل کرنے کی بجائے غیرضروری مسائل چھیڑتی ہے اور اس کا نشانہ صرف اور صرف مسلمان ہوتے ہیں۔ چاہے وہ مساجد کو منہدم کرنے کی بات ہو یا مدارس کے سروے کروانے کا معاملہ، شریعت میں مداخلت کی شرارت ہو یا پھر یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کی باتیں، اس قسم کے غیرضروری مسائل چھیڑ کر وہ عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹانے کی پالیسی پر عمل کرتی ہے۔ اڈوانی کی یاترا نے جس طرح بی جے پی اور آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی کو مضبوط کیا۔ اسی طرح راہول گاندھی کی ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ بی جے پی کے فرقہ وارانہ ایجنڈہ کو شکست دے کر کانگریس میں ایک نئی جان ڈال دے گی اور ہاں ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ کانگریس کو عام انتخابات 2024ء کیلئے تیاری کا موقع فراہم کرے گی۔ راہول گاندھی کو تلنگانہ میں غیرمعمولی پذیرائی حاصل ہوئی۔ امید ہے کہ تلنگانہ میں کانگریس کا موقف بہتر مضبوط ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ راہول گاندھی نے مرکز ، تلنگانہ اور گجرات میں کانگریس کی یقینی کامیابی کا دعویٰ کیا ہے۔ وہ دعویٰ سچ ثابت ہوگا یا نہیں کیونکہ 70 سال کی کامیابیوں کو 8 سال کی مدت میں تباہ کرنے والے راہول گاندھی کی 70 دن کی یاترا سے جاگی اُمیدوں کو 7 دن میں ہی ختم کرسکتی ہے۔