راہول گاندھی کی شکست کے بعد کانگریس کا مستقبل

   

اشوک مہتا
وزیر اعظم نریندر مودی عام انتخابات میں واضح اکثریت کے ساتھ جہاں اپنی دوسری معیاد کے لئے اقتدار کی کرسی پر بیٹھے وہیں گاندھی خاندان کے وارث اورکانگریس کے صدر راہول گاندھی ایک کمزور اور ہارے ہوئے فرد کے طور پر سامنے آئے۔ اس مرتبہ راہول گاندھی کو دوہرے نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایک تو ان کی جماعت وزیراعظم مودی کی بی جے پی کی 300 سے زائد نشستوں کے مقابلے میں صرف 50 نشستیں ہی جیت پائی اور دوسرا یہ کہ وہ خود بھی امیٹھی کے حلقے سے اپنی خاندانی نشست گنوا بیٹھے لیکن اس ناکامی کے باوجود راہول پارلیمنٹ میں پھر بھی موجود ہوں گے کیونکہ اس مرتبہ انھوں نے دو نشستوں سے انتخاب لڑا تھا اور کیرالا کے حلقے ویاناڈ سے وہ کامیاب ہوئے ہیں لیکن امیٹھی کی نشست ان کے لیے وقار کا معاملہ تھا کیونکہ یہ وہ نشست ہے جہاں سے ماضی میں ان کے والدین سونیا گاندھی اور راجیو گاندھی الیکشن لڑے اور جیتے اور وہ خود بھی گزشتہ 15 برس سے یہاں سے کامیاب ہوتے آ رہے تھے۔ راہول گاندھی ہندوستان کے ایک بڑے سیاسی خاندان کا حصہ ہیں۔ ان کے پڑدادا جواہر لعل نہرو ملک کے پہلے اور سب سے زیادہ عرصے تک رہنے والے وزیر اعظم ہیں۔ ان کی دادی اندرا گاندھی ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم رہ چکی ہیں اور ان کے والد راجیو گاندھی ہندوستان کے سب سے نوعمر وزیراعظم رہے۔
کوئی بھی کانگریس سے اس الیکشن میں واضح برتری سے کامیابی کی توقع نہیں کر رہا تھا لیکن اس سے گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں بہتر نتائج کی توقع ضرور تھی۔ اسی لیے انتخابی نتائج پارٹی کے اندر اور باہر بہت سے افراد کے لیے حیران کن ہیں۔
نتائج کی شام راہول گاندھی نے دہلی میں ایک پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے نریندر مودی کو انتخابات میں کامیابی کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ عوام نے بی جے پی کو منتخب کیا ہے اور انھیں اپنا مینڈیٹ دیا ہے، میں تنائج تسلیم کرتا ہوں اور کانگریس کی شکست کی ذمہ داری بھی لیتا ہوں۔ حالانکہ اس وقت تک ان کے آبائی حلقہ امیٹھی میں ووٹوں کی گنتی ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی۔ اس وقت بھی تین لاکھ ووٹوں کی گنتی ابھی باقی تھی لیکن انھوں نے بی جے پی کی امیدوار سمرتی ایرانی کے حق میں یہ شکست تسلیم کرلی تھی جو اس وقت صرف 30 ہزار ووٹوں کی برتری سے آگے تھیں۔ انہوں نے کہا تھاکہ میں انھیں مبارکباد دیتا ہوں کہ وہ جیت گئی ہیں، یہ جمہوریت ہے اور میں عوام کے فیصلے کا احترام کرتا ہوں۔
کانگریس کی انتخابات میں کراری شکست اورکارکردگی اور مستقبل کے لائحہ عمل پر مزید بات نہ کرتے ہوئے راہول گاندھی نے کہا کہ ان تمام امور پر پارٹی کی فیصلہ ساز کانگریس ورکنگ کمیٹی میں بات ہوگی۔ انھوں نے کانگریس کے کارکنوں سے یہ ضرور کہا کہ جو ہارے ہیں یا جو جیت گئے ہیں وہ امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ انھوں نے کہا کہ ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، ہم اپنا کام محنت سے جاری رکھیں گے اور آخرکار جیت جائیں گے۔ ہندوستان کی سیاست میں ریاست اترپردیش بہت اہمیت رکھتی ہے۔ عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ جو جماعت اس بڑی آبادی والی ریاست سے جیتے گی وہی مرکز میں حکومت بنائے گی۔ ہندوستان کے 14 میں سے آٹھ وزرائے اعظم، بشمول راہول گاندھی کے پڑدادا، دادی اور والد اس ریاست سے تھے۔ اس ریاست میں لوک سبھا کی 542 نشستوں میں سے 80 نشستیں ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی جن کا تعلق تو گجرات سے ہے لیکن انھوں نے بھی لوک سبھا کا رکن بننے کے لیے پہلا الیکشن 2014 میں اسی ریاست کے قدیم شہر وارانسی سے لڑا تھا۔ راہول گاندھی نے مستقبل کی فتح کا جو وعدہ کیا ہے وہ نئی دہلی میں کانگریس کے مرکزی دفتر میں جمع ان ناامید پارٹی کارکنوں کو ایک سہانا خواب لگتا ہے جو ٹی وی اسکرینوں پر آنکھیں چپکائے اپنی جماعت کے متعدد سینیئر عہدیداروں کو ہارتا دیکھتے رہے۔ ایک پارٹی عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ ہماری ساکھ بہت کمزور ہے، لوگوں کو ہمارے وعدوں پر اعتبار نہیں ہے۔ وہ اس پریقین نہیں کرتے جو ہم کہہ رہے ہیں۔ مودی اپنے کیے گیے وعدے پورے کرنے میں ناکام ہوئے ہیں لیکن لوگ پھر بھی ان کا یقین کرتے ہیں۔اس کی وجہ ہمیں بھی سمجھ نہیں آئی۔ کانگریس کی اس بدترین کارکردگی نے راہول گاندھی کی قیادت پر سوالات اٹھائے ہیں اور بہت سے تجزیہ نگار پہلے ہی تبدیلی کے نام پر ان سے مطالبہ کر رہے کہ وہ پارٹی کی سب سے بڑے عہدہ سے مستعفی ہو جائیں لیکن ماضی کی طرح یہ تمام مطالبات پارٹی کے باہر سے آ رہے ہیں اور ان کو پارٹی قیادت کی جانب سے مسترد کردیا گیا۔ لکھنؤ میں مقامی پارٹی ترجمان بیجندرا کمار سنگھ نے واضح کیا کہ ان کے خیال میں مسئلہ راہول گاندھی کی گرفت کا نہیں بلکہ پارٹی کے اندرونی اتنشار اور کمزور انتخابی مہم کا ہے۔ پارٹی کے ڈھانچے میں کمزوریاں ہیں۔ عہدوں کے لیے پارٹی کے اندر لڑائیاں ہیں۔ ہم انتخابی مہم میں بھی عوام کے پاس تاخیر سے پہنچے اور ہماری کوششیں بھی ناکام ہوئیںجیسا کہ اترپردیش اور بہار میں علاقائی جماعتوں کے ساتھ اتحاد ایک برا فیصلہ تھا۔ ان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ جو سب مانتے ہیں وہ مودی کی ساکھ تھی۔ وزیر اعظم گزشتہ الیکشن میں کیے گیے اپنے وعدے پورے نہیں کر سکے لیکن وہ پھر بھی لوگوں کو اپنے حکومتی پالیسیوں کا یقیبن دلانے میں کامیاب رہے۔یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ راہول گاندھی کو مودی کے ہاتھوں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 2014 کے انتخاب میں پارٹی کی بدترین شکست کے بعد جس میں اسے صرف 44 نشستوں پر کامیابی ملی تھی، راہول گاندھی کو تقریباً پارٹی سے نکال ہی دیا گیا تھا۔ پھر پارٹی کو چند ریاستی انتخابات میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا اور راہول گاندھی کو عوام سے دوراور ناقابل رسائی ہونے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور سوشل میڈیا پر ان کا غلطیاں کرنے والے بیوقوف اور نامعقول رہنما کے طور پر مذاق اڑایا گیا۔ ان پر نہرو خاندان سے ملنے والی موروثی سیاست پر بھی تنقید کی گئی اور وزیر اعظم مودی جو ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ راہول گاندھی پارٹی قیادت تک میرٹ پر نہیں پہنچے بلکہ موروثی سیاست کے سبب آئے ہیں لیکن گزشتہ دو برسوں سے ان کا سیاسی گراف بہتر ہوا ہے، وہ ایک بہتر سیاسی رہنما بن کر سامنے آ رہے ہیں، ان کی سوشل میڈیا مہمات بہتر ہو گئی ہیں اور انھوں نے بھرپور اور پراثر انداز میں حکومت کی متنازعہ کرنسی پابندی کی پالیسی، روزگار کے مواقع کی عدم فراہمی، ملک میں بڑھتی عدم برداشت اور معاشی سست روی پر تنقید کرنا شروع کی ہے۔وہ انتخابی مہم کے ایجنڈا کو لے کر جارحانہ انداز میں آگے بڑھتے دکھائی دیے اور دسمبر میں جب انھوں نے راجستھان، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں اہم ریاستی انتخابات میں فتح حاصل کی تو بہت سے لوگوں نے کہا کہ انھوں نے پارٹی کو دوبارہ ایک نئی پہچان دلا دی ہے اور پھر فروری میں جب ان کی پرکشش شخصیت کی مالک بہن پرینکا گاندھی نے اترپردیش میں ان کی مدد کے لیے ان کا ساتھ دیا تو ایسا لگا کہ گاندھی خاندان اب کچھ کر کے ہی دم لے گا۔ اگر آپ منشور دیکھیں تو یہ سب سے اچھا ہے۔ جن پالیسوں کا اعلان کیا تھا، جو وعدے کیے تھے وہ سب سے بہترین تھے لیکن ہمیں جو امید ووٹرز(رائے دہندگان) سے تھی، جو حمایت کی امید ہمیں تھی وہ نہیں ہوئی۔ صرف راہول گاندھی ہی نہیں ہے جو ہارے ہیں، بہت سے دیگر رہنما بھی ہارے ہیں۔ الیکشن آتے جاتے ہیں آپ کبھی ہارتے ہیں اور کبھی جیتتے ہیں۔ آپ یاد کریں 1984 میں جب بی جے پی صرف دو سیٹوں تک محدود ہو گئی تھی؟ کیا انھوں نے دوبارہ کامیابی حاصل نہیں کی؟