کپل کومی ریڈی
ایک ایسے وقت جبکہ ہندوستانی جمہوریت کو ہر روز ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جارہا ہے اور مودی حکومت پر آمرانہ روش اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ من مانی فیصلے کرنے، زندگی کے ہر شعبہ کو متاثر کرنے کے الزامات عائد کئے جارہے ہیں۔ اپوزیشن خاص طور پر کانگریس اور اس کی قیادت کی معنیٰ خیز خاموشی بھی عوام کی فکر میں اضافہ کردیتی ہے۔ نریندر مودی حکومت کی یہ دوسری میعاد ہے۔ پہلی میعاد اور پھر دوسری میعاد کے بعد ایسے بے شمار مواقع ضرب مخالف یا اپوزیشن جماعتوں کو حاصل ہوئے جس کے ذریعہ وہ مودی حکومت کو بہ آسانی گھیر سکتی تھیں لیکن اپوزیشن اور بالخصوص کانگریس مودی حکومت کو گھیرنے اور مختلف اسمبلی انتخابات میں اس کے خلاف کامیابی حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔ کانگریس کی ناکامی کے لئے گاندھی خاندان کو ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے اور یہی کہا جارہا ہے کہ وہ چاپلوسوں کے گھیرے میں ہیں سونیا گاندھی، پرینکا گاندھی اور راہول گاندھی اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہے۔ ملک کے موجودہ سنگین حالات اور اپوزیشن کی ناکامی کو دیکھتے ہوئے ممتاز مصنف کپل کومی ریڈی نے راہول گاندھی کے نام مذکورہ نکات اٹھاتے ہوئے ایک کھلا خط لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
ڈیر راہول گاندھی
ہندوستانی جمہوریت دن بہ دن زوال کا شکار ہے اور اسے ہر روز تباہ و برباد کیا جارہا ہے۔ جمہوریت کو ناقابل نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ آج ملک کے جو حالات ہیں وہ ایک حرکیاتی نڈر و بے باک اپوزیشن کی موجودگی میں ناممکن ہوتی۔ اگر اپوزیشن یہ سوچ لیتی کہ ہم یہاں کس لئے ہیں اور ہمارا فرض کیا ہے تو پھر ہمارے ملک کی جمہوریت کو جو نقصان پہنچایا جارہا ہے وہ عمل رک جاتا۔ اگر نریندر مودی ہندوستانی المیہ کا ایک پہلو ہیں تو آپ بھی اپنی تمام شائستگی اور بلند عزائم کے ساتھ دوسرا المیہ ہیں۔ آج ہم اپنے ملک میں جو آمریت دیکھ رہے ہیں اس کے لئے مودی حکومت کی پہلی میعاد میں میدان تیار کیا گیا اور پھر ملک کے خود مختار اداروں کو ایک منظم انداز میں کمزور کیا گیا۔ میں آپ کو اس بات کا تصور کرنے کی دعوت دیتا ہوں کہ اگر موجودہ حکومت مسلسل تیسری مرتبہ مرکز میں اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر ملک کی حالت کیا ہوگی؟ اور اس کے ملک کے لئے کیا نتائج برآمد ہوں گے؟ اگر موجودہ حکومت تیسری مرتبہ کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کے لئے آپ کو ذمہ دار قرار دیا جائے گا اور آپ ہی اس کے ذمہ دار ہوں گے کیونکہ مسلسل دو مرتبہ تاریخی ناکامیوں کے باوجود آپ اور آپ کی پارٹی نے بی جے پی کو بے دخل کرنے کے لئے ٹھوس اور جرأت مندانہ اقدامات نہیں کئے۔ جس طرح دو مرتبہ بی جے پی کو شاندار کامیابی حاصل ہوئی اور ملک کی سب سے قدیم پارٹی کانگریس کو مسترد کیا گیا اس کے بعد مضبوط متبادل کے طور پر خود کو پیش نہ کرنا ایک بڑی توہین کے مترادف ہے۔ جاریہ سال اپریل میں کم از کم 6 ریاستوں کے اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ایسے میں آپ کو اور پارٹی قائدین کو یہ چاہئے کہ اپنی پارٹی کو تیار کریں اور اس کے لئے کل وقتی لیڈر کی فوری تلاش شروع کردیں۔ بجائے اس کے کانگریس نے ہمیشہ قیادت کے سوال کو ٹالنے کو ترجیح دی، وجہ یقینا سب کو معلوم ہے۔ موجودہ طور پر یہی دیکھا جارہا ہے کہ کانگریس بعض ریاستوں کے مجوزہ اسمبلی انتخابات کے باوجود ایک لیڈر کی تلاش میں تاخیر روا رکھے ہوئے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو یہی لگتا ہے کہ لیڈر کے تقرر میں تاخیر اور اسے منسوخ کرنے کے پیچھے یہی وجہ کارفرما ہے کہ آپ کو پارٹی کی ناگزیر شکستوں کی امکانی شرمندگی سے بچایا جائے۔ میں ایک بار پھر یہی بات پرزور انداز میں کہتا ہوں کہ کانگریس جیسی پارٹی کو چلانے والوں کی پہلی ترجیح آپ کو تحفظ فراہم کرنا ہے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا نہیں۔ اگر ہم دنیا کے مختلف مستحکم جمہوری ممالک کی سیاسی جماعتوں کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ جماعتیں خاص طور پر انتخابی میدانوں میں کامیابی کے لئے اپنے لیڈروں کا تقرر کرتی ہیں، لیکن کانگریس کی یہ انفرادیت ہے کہ وہ ایک لیڈر کے تقرر کو ملتوی کئے جانے کی وجہ انتخابی جنگیں بتاتی ہیں۔ گاندھی خاندان نے کانگریس پر اپنی اجارہ داری و برتری قائم رکھی ہے اور یہ سمجھتی ہے کہ بے شمار ہندوستانی اب بھی سیکولرازم کے اقدار میں یقین رکھتے ہیں اور وہ لوگ کانگریس کی مدد کریں گے۔ اس طرح آپ کا سوچنا مودی کے لئے ایک تحفہ کے مترادف ہے۔ بے شک آپ رحم دل اور ہمدردانہ رویہ کے لئے شہرت رکھتے ہیں اور آپ کی شخصیت کو خاندانی مورثیت نے ڈھانک لیا ہے۔ خاندان کے باعث ہی گاندھی خاندان کے ارکان کو اہمیت دی جاتی ہے۔ ایک طرف آپ ہیں جو بہت بڑے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور دوسری طرف وزیر اعظم ہیں جو معاشرہ کی تہہ سے اوپر اٹھے ہیں۔ وہ ایک ایسی ماں کی کوک سے پیدا ہوئے جس نے لوگوں کے گھروں میں برتن دھوئے اور وہ ایسے باپ کے بیٹے ہیں جس نے چائے فروخت کی اور آج وہ اقتدار پر فائز ہیں اور اقتدار پر فائز ہونے کے لئے انہوں نے جس طرح کے اقدامات کئے اس سے سب واقف ہیں۔ ان کے اقدامات نے ہی انہیں 2014 کے انتخابات میں کامیابی دلائی اور وہ اقتدار پر فائز ہوئے۔ اگرچہ وزیر اعظم فی الوقت تنقیدوں کی زد میں ہیں لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہیکہ 6 برسوں کے دوران انہوں نے اپنی پارٹی کے نقوش ملک کے کونے کونے تک پہنچانے میں کامیابی حاصل کی۔ پارٹی کی سرگرمیوں کو ان علاقوں میں بھی وسعت دی جہاں ہندوتوا کے تئیں لوگ منفی خیالات رکھتے تھے۔ دوسری میعاد میں شاندار کامیابی حاصل کرنے کے بعد بی جے پی نے اپنی قیادت میں نیا خون شامل کرنے کے عمل کا آغاز کیا، جبکہ کانگریس میں اگر نیا خون شامل کرنے کی بات ہوتی ہے تو گاندھی خاندان کے بچوں کو ہی فروغ دیا جاتا ہے یا آگے بڑھایا جاتا ہے۔ آپ کی پارٹی میں اصولی طور پر اس بات کو ترجیح دی جاتی ہے کہ کانگریس قیادت کی اہلیت کے بارے میں سوال اٹھانے یا شکوک و شبہات کا اظہار کرنے والوں کو بالکل الگ تھلگ کیا جائے، انہیں ذلیل و خوار کیا جائے اور اس طرح کے عناصر کو بے ایمان و بددیانت کے طور پر پیش کیا جائے۔ شاید اسی طرز عمل میں یا ترجیحات کے باعث کانگریس جیسی قدیم پارٹی کو مسلسل دوسری مرتبہ شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پچھلے سال اگست میں کانگریس ورکنگ کمیٹی نے بڑے زور و شور کے ساتھ داخلی جمہوریت کا نعرہ بلند کیا اور اس کے لئے یہ قرارداد منظور کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ آپ کے ہاتھ مضبوط کئے جائیں گے۔ اور اس کی بنیاد یہ تھی کہ آپ کی قیادت کے بارے میں کہا گیا کہ اس نے ہندوستانیوں کی ایک نسل کو متاثر کیا ہے۔ اگر اس دعوے کا کوئی بھی ایک حصہ صحیح ہوتا تو پھر ملک میں مودی حکومت نہیں ہوتی۔ ایک ہی خاندان کی پوجا اور اسے حد سے زیادہ اہمیت دینے کے نتیجہ میں دنیا کی قدیم پارٹیوں میں سے ایک پارٹی موجودہ صورتحال کا شکار ہوئی ہے۔ اس طرح کا رجحان ایسا لگتا ہے کہ صرف کانگریس میں ہی پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ آپ دعویٰ کرتے ہیں ویسے ہی آپ کو ہندوستان سے پیار ہے تو پھر چاپلوسوں کے دائرہ سے باہر نکل آئیں۔ بدعنوان و گھٹیا شخصیتوں سے خود کو بچائیے۔ یہ عناصر اور ان کی چاپلوسی آپ کی رسوائی کا باعث بن رہی ہے۔ آج اگر ہم غور کریں تو بہ حیثیت مجموعی یہ کہہ سکتے ہیں کہ کانگریس فی الوقت ایک موثر اپوزیشن کا رول ادا کرنے میں ناکام رہی۔ آپ ہندوستانی جمہوریت کو درپیش جان لیوا خطرہ کی بات کرتے ہیں لیکن آپ اس وقت تک ہندوستان میں جمہوریت بحال نہیں کرسکتے جب تک اپنے ادارہ میں یا اپنی جماعت میں مورثی آمریت برقرار رکھتے ہیں۔ اس سلسلہ میں آپ کو کانگریس کی طرح کام کرنے والی برطانوی لیبر پارٹی کا جائزہ لینا چاہئے جس نے ببانگ دہل اعلان کیا ہے کہ پارٹی قیادت عوام کو اپنی جانب راغب کرنے کے قابل ہونی چاہئے اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو پھر یہ جمہوریت کے لئے بہت بڑا نقصان ہے۔ ایسے ہی اگر کانگریس ان اہم نکات پر توجہ نہیں دیتی تو پھر ہندوستان میں جمہوریت کو نقصان کا باعث بنے گی۔ کانگریس میں ششی تھرور، وائی سدارامیا اور پی چدمبرم جیسے سینئر، قابل، موثر اور تجربہ کار قائدین شامل ہیں۔ ان قائدین کو اہمیت دی جانی چاہئے تاہم ایسا نہیں ہوتا۔ جہاں تک ششی تھرور کا سوال ہے انہوں نے اقوام متحدہ میں اعلیٰ اور باوقار عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں۔ پناہ گزینوں کے لئے عالمی سطح پر شروع کردہ راحت کاری کارروائیوں کی نگرانی کی ہے حالانکہ یہ کارروائیاں بہت زیادہ پیچیدہ تھیں۔ ششی تھرور نے اقوام متحدہ کے ایک اہم عہدہ دار کی حیثیت سے سابق یوگوسلاویہ میں مختلف گروپوں کے درمیان بات چیت کرواتے ہوئے دشمنی کا خاتمہ کیا۔ خانگی شعبہ میں انہیں پرکشش پیشکشیں کی گئیں لیکن ملک کی خدمت کے لئے تھرور نے سیاسی شعبہ میں کیریئر شروع کیا اور کمیونسٹوں کے گڑھ سے تین مرتبہ لوک سبھا کے لئے منتخب ہوتے آئے۔ اگر دیکھا جائے تو جمہوری دنیا میں ششی تھرور جیسا فرد اہم پارٹیوں کی قیادت کے لئے صف اول میں شامل ہوتا لیکن کانگریس میں ان کی حیثیت ایک مہمان فنکار کی بنادی گئی ہے۔ ہندوستان کی بقاء کے لئے کانگریس کے ان مہمان فنکاروں کو قائدانہ رول ادا کرنے کی اجازت دی جانی چاہئے۔ کانگریس میں داخلی جمہوریت بحال کی جانی چاہئے۔ اس سلسلہ میں آپ کو بھوٹان کے سابق حکمراں جگمے سنگے وانگچک سے سبق سیکھنا چاہئے۔ جنہوں نے اپنے اُن درباریوں کو ان کا مقام دکھایا تھا جو دعویٰ کرتے تھے کہ وانگچک ان کے لئے خدا ہے۔ وانگچک نے ایک جدید دستور نافذ کیا اور ایسا دستور جس کے ذریعہ جمہوریت کو فروغ دیا گیا۔ برائے مہربانی ہندوستان میں جمہوریت کو فوت ہونے سے بچائے۔