’’رشتہ ایک پیار کا‘‘

   

مصنفہ : پروفیسر شمیم علیم
تبصرہ نگار : سید امتیاز الدین

’’رشتہ ایک پیار کا‘‘ شمیم علیم صاحبہ کی دسویں کتاب ہے۔ شمیم علیم کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ اُردو کے علاوہ انگریزی میں بھی لکھتی ہیں۔ انگریزی میں اُن کی گیارہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ تعداد کے اعتبار سے انگریزی کتابوں کا پلڑا اُردو کتابوں سے کچھ بھاری معلوم ہوتا ہے لیکن موضوع کے اعتبار سے اُن کی اُردو کتابیں اور زیادہ دقیع لگتی ہیں۔ شمیم علیم ادیبہ ہی نہیں بلکہ اپنے طرز تحریر اور موضوعات کے لحاظ سے ایک جہدکار لگتی ہیں۔ عدم مساوات، ظلم اور غریبی کے خلاف دو بڑی دلیری سے قدم اُٹھاتی ہیں۔ ان کی پیدائش شاید مدھیہ پردیش کی ہے۔ اُنہوں نے ناگپور یونیورسٹی سے ایم اے (پبلک ایڈمنسٹریشن) کیا اور وہیں سے ایم اے (پولیٹیکل سائنس) کی ڈگری بھی حاصل کی۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ ان تمام اعلیٰ ڈگریوں سے بھی بڑی ایک ڈگری ہوتی ہے، اور وہ ہے شادی۔ شادی کی ڈگری بھی ایک لحاظ سے شمیم علیم نے عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد سے حاصل کی۔ ان کے شوہر پروفیسر ایم اے علیم بھی عثمانیہ کے پروفیسر تھے اور وہ بھی پبلک ایڈمنسٹریشن کے شعبہ سے وابستہ تھے۔ شوہر کے انتقال کے بعد شمیم علیم نے رضاکارانہ طور پر ملازمت سے سبکدوشی اختیار کی اور امریکہ چلی گئیں اور پچھلے بیس پچیس سال سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ امریکہ جانے کے بعد بھی حیدرآباد سے ان کی وابستگی برقراری رہی اور وہ تقریباً ہر سال یا دوسرے سال حیدرآباد آتی رہیں۔ وہ تو کہئے کہ کورونا کے سبب سفر کی تحدیدات نے ہر ملک کی سرحدیں بند کردیں، اس لئے شمیم علیم امریکہ ہی میں مقیم رہنے پر مجبور ہیں لیکن ان کا قلم آزاد ہے اور حیدرآباد کے ماحول میں نت نئی سماجی، فلاحی اور اصلاحی کہانیاں سنتا رہتا ہے۔
شمیم علیم کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے اطراف کے ماحول پر گہری نظر رکھتی ہیں۔ ہم حالات اور واقعات کو دیکھتے تو ہیں لیکن بالآخر ان کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ شمیم علیم ان واقعات کو دیکھتی بھی ہیں اور ان کو ایک متاثرکن کہانی کا لباس پہناتی ہیں اور دنیا کے سامنے اچھوتے انداز میں پیش کردیتی ہیں۔ ’’زندگی کے موڑ پر‘‘ اس کی ایک مثال ہے۔
کورونا کی وباء نے ساری دنیا کے لوگوں کی زندگی بدل دی۔ متوسط درجے کے لوگ خستہ حال ہوگئے۔ بڑے بڑے طاقتور ملکوں کو اپنی اوقات معلوم ہوگئی۔ شمیم نے دنیا کے حالات کا جائزہ لیا اور اپنے قاری کو اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ ہماری حیثیت خدا کے سامنے ایک چیونٹی سے بھی کم ہے۔
’’اللہ توبہ یہ لاک ڈاؤن‘‘ میں ہلکا مزاح بھی ہے اور کچھ مبالغہ بھی چونکہ سب اس مرحلے سے گذر چکے ہیں، اس لئے یہ انشائیہ بہت اچھا لگا۔ ہم دیکھیں گے۔ فیض احمد فیض کی ایک بڑی متاثرکن نظم ہے جو انہوں نے ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں لکھی تھی جسے اقبال بانو نے بڑے پرجوش انداز میں گایا تھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہ نظم ہندوستان میں اور زیادہ مقبول ہوئی اور ایک پرجوش نعرہ بن گئی۔ شمیم علیم نے ایک بڑا اچھا انشائیہ لکھ ڈالا جو اس کتاب میں شامل ہے۔
حمایت علی شاعر مرحوم، مجتبیٰ حسین اور حسن چشتی کے انتقال پر شمیم علیم کے تاثراتی مضامین مختصر ہیں لیکن شمیم علیم کے دلی جذبات کے آئینہ دار ہیں۔ ان کے علاوہ جملہ تیس مضامین کتاب میں شامل ہیں۔ ذوق سلیم اور سماجی مسائل پر نظر رکھنے والوں کے لئے یہ ایک بہت اچھی کتاب ہے۔ طباعت معیاری، ضخامت 112 صفحات، قیمت 300 روپئے، سیاست سیل کاؤنٹر کے علاوہ ماڈرن پبلیشنگ ہاؤز، نئی دہلی سے بھی یہ کتاب حاصل کی جاسکتی ہے۔