رشی سنک کا برطانوی وزیر اعظم بننا ایک خوش آئند پہل

   

ظفر آغا

یہ بات کسی کو پسند ہو یا نہ ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ رشی سنک نے برطانیہ ہی نہیں بلکہ عالم انسانیت میں تاریخ رقم کی ہے۔ برطانیہ جیسے نسل پرست ملک میں ایک غیر سفید فام ہندوستانی نڑاد رشی سنک کا وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہونا یقیناً ایک تاریخی واقعہ ہے۔ وہ برطانیہ جو کبھی ہندوستان پر حکومت کرتا تھا، آج اسی برطانیہ پر ایک ہندوستانی نذاد شخص حاکم ہے۔ یہ نسل پرستی کے خلاف ایک بڑا قدم ہے لیکن یہ تاریخ ساز تبدیلی آخر ممکن کیوں کر ہوئی۔ یوں تو سیاسی سطح پر اس کی وجہ یہ ہے کہ برطانیہ ان دنوں سخت معاشی بحران کا شکا رہے۔ اس معاشی بحران نے ملک میں سیاسی بحران پیدا کر دیا ہے۔ عالم یہ ہے کہ پچھلے چھ سات ہفتوں کے اندر رشی سنک برطانیہ کے تیسرے وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں۔ ان سے قبل بورس جانسن اور پھر لز ٹرس دو وزیر اعظم آئے اور گئے۔ رشی سنک بورس جانسن کی کابینہ میں معاشی امور کے وزیر تھے۔ وہ معاشیات کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ جب کسی سے برطانیہ کے معاشی حالات نہیں سنبھل پائے تو آخر ان کی پارٹی نے مجبور ہو کر رشی سنک کو ملک کی باگ ڈور سونپ دی۔ لیکن آج سے کوئی دس برس قبل چاہے ملک کے سیاسی و معاشی حالات کیسے بھی ہوتے کوئی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ برطانیہ میں ایک غیر گوری نسل کا شخص وزیر اعظم بن سکتا ہے۔
لیکن ان دنوں حقیقت یہ ہے کہ یورپ میں نسل پرستی کا زور ہے۔ ابھی کوئی ڈیڑھ ماہ قبل اسی یورپ کے اٹلی میں ایک خاتون جیورجیا میلونی وہاں کی وزیر اعظم منتخب ہوئی ہیں۔ وہ برادرس آف اٹلی نام کی پارٹی کی لیڈر ہیں۔ اس پارٹی نے ملک میں باہر سے آئے اور بسنے والے افراد کے خلاف نفرت کا سیلاب بپا کر خالص گوری نسل پرستی کی بنیاد پر چناؤ جیتا ہے۔ برادرس آف اٹلی کی سیاست وہی ہے جیسی کہ ہندوستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی مسلم منافرت کی سیاست۔ ایک اٹلی کیا، تقریباً آدھے درجن یورپی ممالک میں ان دنوں باہر سے آ کر بسنے والوں کے خلاف نفرت کا سیلاب ہے اور ان ممالک میں نسل پرست حکومتیں قائم ہیں۔ ایک یورپ ہی کیا کچھ عرصے قبل امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کی حکومت بھی خالص نسل پرستی کی بنیاد پر چنی گئی تھی۔
دراصل دنیا ایک عجیب و غریب دور سے گزر رہی ہے۔ وہ ایشیا میں ہندوستان ہویا یورپ اور امریکہ کے ممالک، ہر جگہ منافرت کی سیاست کا زور ہے۔ اسی منافرت کے سیلاب میں رشی سنک نے برطانیہ کی نسل پرستی کی روایت کو توڑ کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا میں ان دنوں یہ دو متضاد سیاسی دھارائیں کیوں چل رہی ہیں! دراصل ساری دنیا کے جمہوری نظاموں کے تحت اور اس کے علاوہ بھی ہر شخص کو ووٹ ڈال کر اپنی حکومت چننے کا حق تو کافی عرصے پہلے مل گیا تھا۔ اس اعتبار سے زیادہ تر ممالک میں ہر شہری آپس میں برابری کا حق رکھتا تھا۔ لیکن یہ برابری دراصل بڑی سطحی ثابت ہوئی۔ دنیا میں صدیوں سے جو رنگ، نسل یا ذات جیسی بنیاد پر سماجی غیر برابری قائم تھی اس کو آئینی طور پر برابری کا اختیار سماج سے ختم نہیں کر سکا۔ مثلاً ہندوستان کو ہی لے لیجیے! یہاں ووٹ ایک برہمن بھی ڈال رہا ہے اور ایک دلت و مسلمان بھی ڈالتا ہے۔ لیکن سماجی سطح پر کیا یہ تینوں حقیقی معنوں میں برابر ہیں۔ ظاہر ہے کہ نہیں۔ دلت آج بھی سماج میں اچھوت ہے اور مسلمان بھی دوسرے درجے کا شہری ہے۔ لیکن سنہ 1990 میں منڈل کی سیاست نے سماجی سطح پر قائم اسی ذاتی کھائی کو کسی حد تک توڑا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ یوپی اور بہار میں پسماندہ ذاتوں کو اقتدار حاصل ہوا۔ اور ان دونوں ہی صوبوں میں مسلم اقلیت کو بھی اس دور میں کسی حد تک راحت حاصل ہوئی۔ لیکن جب یہاں اعلیٰ ذاتوں کے ہاتھوں سے اقتدار کھسکنے لگا اور منڈل کے بعد ملک میں سماجی برابری کی بھی شروعات ہوئی تو بی جے پی نے مسلم منافرت کی سیاست پیدا کر سماجی تبدیلی کو روک دیا۔ اس طرح ہندوستان میں جو سماجی برابری کا دور شروع ہونا تھا وہ رک گیا اور ملک میں ایک بار پھر وہی ذات پات کا نظام حاوی ہو گیا۔
لب و لباب یہ کہ انسانیت اب ایک ایسے دور میں داخل ہو رہی ہے جہاں انسانی برابری اب محض ایک سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ سماجی مسئلہ بھی بن گیا ہے۔ اب سماجی طور پر دبا کچلا انسان جاگ چکا ہے۔ وہ محض ووٹ ہی نہیں بلکہ سماجی برابری کا بھی خواہاں ہے۔ تب ہی تو نسل پرستی اور ذات پات کا نظام خطرے میں ہے۔ لیکن نسل اور ذات پات پر مبنی صدیوں پرانا سماجی نظام ابھی بھی سماجی سطح پر انسانی برابری کے تصور کو ماننے کو تیار نہیں ہے۔ چنانچہ اس نسل اور ذات پات کے نظام نے ساری دنیا میں ایک نئی منافرت کی سیاست کا چولا پہن کر دنیا میں سماجی برابری کو روکنے کی سیاست شروع کر دی ہے۔
کوئی بھی سماجی انقلاب آسانی اور جلدی سے بپا نہیں ہوتا ہے۔ سماجی برابری کے انقلاب کے راستے میں بھی نسل پرستی اور ذاتی نظام طرح طرح کی رکاوٹیں پیدا کرے گا۔ لیکن منافرت کی سیاست ہمیشہ کے لیے اس انقلاب کو روک نہیں سکے گی۔ چنانچہ وہ یورپ ہو یا ہندوستان، ہر جگہ ایک دن سماجی تبدیلی آ کر رہے گی۔ یعنی سماجی انقلاب میں دیر ہو سکتی ہے، لیکن اندھیر نہیں۔ اس پس منظر میں رشی سنک کا برطانیہ کا وزیر اعظم بننا ایک خوش آئند پہل ہے۔