گورنر ہریانہ بنڈارو دتاتریہ کی دعوت افطار میں شرکت، نوجوان نسل کو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کرنے کا مشورہ
حیدرآباد 30 مارچ (سیاست نیوز) گورنر ہریانہ بنڈارو دتاتریہ نے مسلمانوں کو عیدالفطر کی مبارکباد پیش کی اور ملک میں ترقی اور فلاح و بہبود کے نئے دور کے آغاز کا یقین ظاہر کیا۔ بنڈارو دتاتریہ نے چندی گڑھ میں ہریانہ کے صدرنشین حج کمیٹی چودھری محسن رضا کی جانب سے ترتیب دی گئی دعوت افطار میں شرکت کی۔ اِس موقع پر ہریانہ کی نامور مسلم شخصیتوں کے علاوہ مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ گورنر بنڈارو دتاتریہ نے خطاب کرتے ہوئے مسلمانوں کو رمضان المبارک اور عیدالفطر کی پیشگی مبارکباد پیش کی اور کہاکہ رمضان المبارک روحانیت میں اضافہ کا مہینہ ہے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے علاوہ غریبوں کی داد رسی کا درس ملتا ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ اسلام میں رمضان المبارک کو نمایاں اہمیت حاصل ہے کیوں کہ اِس میں عبادتوں کا خصوصی طور پر اہتمام کیا جاتا ہے اور ایک ماہ کے روزوں کے ذریعہ نفس کی تطہیر ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں مسلمان روزے اور عبادتوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ نفس کی اصلاح کا کام کررہے ہیں۔ بنڈارو دتاتریہ نے کہاکہ رمضان المبارک محض بھوکے اور پیاسے رہنے کا نام نہیں بلکہ یہ زندگی میں ڈسپلن، روحانیت اور غریبوں کی مدد کی ترغیب دیتا ہے۔ گورنر نے کہاکہ اسلام کے پانچ ارکان میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی شہادت نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج شامل ہیں۔ مسلمانوں کی زندگی میں اسلام کے پانچوں ارکان پر عمل آوری کے ذریعہ باہمی بھائی چارہ کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ بنڈارو دتاتریہ نے کہاکہ رمضان المبارک میں حضور اکرم ﷺ پر قرآن مجید کے نزول کا آغاز ہوا اور یہ اسلامی تاریخ کا یادگار لمحہ ہے۔ اُنھوں نے نوجوان نسل کو مشورہ دیا کہ وہ تاریخ اسلام سے خود کو ہم آہنگ کریں۔ گورنر نے نوجوان نسل کو معیاری تعلیم کی فراہمی اور اُنھیں مسابقتی امتحانات کے لئے تیار کرنے کی ضرورت ظاہر کی۔ گورنر نے کہاکہ ایک تعلیم یافتہ نوجوان ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ گورنر نے اِس موقع پر قرآن مجید اور حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات کے بعض اقتباسات پیش کئے۔ اِس موقع پر ہریانہ کے ہوم سکریٹری ڈاکٹر سمیتا مشرا، سابق وزیر نصرت علی خان، اترپردیش کے سیاسی رہنما کلدیپ کمار، یوگیندر سنگھ اور دوسرے شریک تھے۔ گورنر بنڈارو دتاتریہ نے کہاکہ دعوت افطار کے اہتمام سے سماج میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو استحکام حاصل ہوں گے اور مختلف مذاہب ایک دوسرے سے قریب آسکتے ہیں۔1