انتظامات سے محکمہ اقلیتی بہبود کی سرد مہری، برقی ، آبرسانی اور بلدی مسائل پر توجہ کی ضرورت
حیدرآباد۔رمضان المبارک کے انتظامات کے سلسلہ میں حکومت اور بالخصوص محکمہ اقلیتی بہبود کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اب جبکہ ماہِ مقدس کے آغاز کو محض دو دن باقی ہیں حکومت نے سرکاری سطح پر آج تک جائزہ اجلاس طلب کرتے ہوئے محکمہ جات کو بہتر انتظامات کی ہدایات جاری نہیں کی ہیں۔ گذشتہ کئی برسوں سے یہ روایت رہی ہے کہ رمضان المبارک کے آغاز سے ایک ہفتہ قبل سرکاری سطح پر جائزہ اجلاس منعقد کیا جاتا ہے جس میں متحدہ آندھرا پردیش میں اسوقت کے چیف منسٹرس شریک رہا کرتے تھے۔ اجلاس میں ریاست بھر کیلئے انتظامات کو قطعیت دی جاتی اور کلکٹرس کو ہدایات جاری کی جاتیں۔ علحدہ تلنگانہ ریاست کے قیام کے بعد سے یہ اجلاس وزراء کی سطح پر ہونے لگے۔ گذشتہ سال کورونا لاک ڈاؤن کے سبب رمضان المبارک کے انتظامات لاک ڈاؤن کی نذر ہوگئے۔ اب جبکہ جاریہ سال رمضان المبارک سے قبل کیسس کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے تاہم کے سی آر حکومت نے لاک ڈاؤن یا نائیٹ کرفیو کے امکانات کو مسترد کردیا۔ ایسے میں حکومت کی سطح پر جائزہ اجلاس طلب کیا جاسکتا تھا۔ وزیر اقلیتی بہبود کے ایشور کو اقلیتی بہبود کے معاملات سے کبھی بھی دلچسپی نہیں رہی جبکہ وزیر داخلہ محمد محمود علی گذشتہ ایک ہفتہ سے ناگرجنا ساگر کی انتخابی مہم میں مصروف ہیں اور توقع ہے کہ 15 اپریل تک وہ مہم میں مصروف رہیں گے۔ وزراء کی عدم موجودگی میں حکومت کے مشیر یا سکریٹری اقلیتی بہبود جائزہ اجلاس طلب کرسکتے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ دراصل عہدیداروں کو رمضان المبارک کے انتظامات سے کوئی دلچسپی دکھائی نہیں دیتی۔ رمضان کے دوران برقی و آبرسانی کی موثر سربراہی کے علاوہ مساجد کے اطراف صحت و صفائی کے انتظامات اور امن و ضبط کی برقراری کیلئے پولیس کو ہدایات جاری کی جاتی ہیں رمضان المبارک میں سحر اور افطار کے موقع پر دو مرتبہ کچرے کی نکاسی کا انتظام کیا جاتا ہے۔ سحر، افطار اور تراویح کے موقع پر بلا وقفہ برقی کی سربراہی کیلئے خصوصی ٹرانسفارمرس کا انتظام کیا جاتا ہے۔ بڑی مساجد میں تعمیری و مرمتی کاموں کیلئے فنڈز منظور کئے جاتے ہیں ۔ ہر سال مختلف محکمہ جات کے عہدیداروں پر مشتمل کوآرڈینیشن کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے عوام کیلئے ان کے ٹیلی فون نمبرس جاری کئے جاتے رہے تاکہ برقی، آبرسانی اور دیگر مسائل پر شکایت کی جاسکے۔ جاریہ سال عوامی نمائندوں نے بھی جائزہ اجلاس کیلئے حکومت سے نمائندگی نہیں کی۔ مکہ مسجد اور شاہی مسجد کے انتظامات سے حکومت کی عدم دلچسپی پر مسلمانوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومت 17 اپریل کو ناگرجنا ساگر میں رائے دہی کے بعد ریاست میں کورونا تحدیدات کے تحت سخت فیصلے کرنے کا ارادہ رکھتی ہو۔