حیدرآباد ۔ 19 ۔ اپریل : ( سیاست نیوز ) : ایک ایسے وقت جب کہ ماہ رمضان المبارک اپنے اختتام کو پہونچ رہا ہے ۔ اس مقدس ماہ میں لوگوں نے رب العزت کے رحم و کرم سے بے تحاشہ استفادہ کیا اور بار بار اپنے رب کے آگے سر بہ سجود ہو کر اس کا شکر ادا کیا ۔ عید الفطر کی آمد آمد ہے ۔ بندگان خدا میں ایک خوشی کی کیفیت پائی جاتی ہے ۔ لیکن دوسری طرف ایسی عظیم ہستیاں بھی شامل ہیں جنہوں نے ماہ رمضان میں تراویح کے علاوہ دوسری عبادتوں میں مسلمانوں کی رہبری و رہنمائی کی ہے ۔ وہ خوشیوں سے کافی دور ہیں ۔ ہم بات کررہے ہیں ۔ آئمہ و موذنین کی جنہیں پچھلے تین ماہ سے سرکاری اعزازیہ سے محروم رکھا گیا ہے ۔ حکومت کی مجرمانہ غفلت اور لاپرواہی سے آئمہ موذنین جنوری تا مارچ تک سرکاری اعزازیہ سے محروم ہیں ۔ اپریل کے بھی 20 دن مکمل ہوچکے ہیں صرف 10 دن گذر جائے تو بقایہ جات چار ماہ کے ہوجائیں گے ۔ ماہ رمضان کے روزے رکھنے اور عبادتیں کرنے کے بعد سارے مسلمان عید کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے ہیں مگر حکومت آئمہ موذنین کے ساتھ انصاف کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ حکومت رمضان گفٹ اور سرکاری افطار پارٹیوں پر 60 کروڑ روپئے سے زیادہ کی رقم خرچ کرچکی ہے لیکن ریاست تلنگانہ کے تقریبا 10 ہزار آئمہ موذنین کو جنہیں ماہانہ 5 ہزار روپئے سرکاری اعزازیہ دیا جاتا ہے ۔ اس کو بھی بہ پابندی جاری نہ کرتے ہوئے انہیں عید کی خوشیوں سے محروم کیا جارہا ہے ۔ حیدرآباد کے ایل بی اسٹیڈیم کے علاوہ اضلاع میں بھی افطار پارٹیوں کا اہتمام کیا گیا ۔ اس کے اہتمام سے صرف حکومت اور بی آر ایس پارٹی کو صرف سستی شہرت حاصل ہوئی ہے ۔ لیکن غریب عوام بالخصوص آئمہ موذنین کو کوئی فائدہ نہیں پہونچا ۔ بیشتر روزہ دار افطار کے بعد تناول طعام سے بھی محروم رہے ہیں ۔ اگر حکومت گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دینا چاہتی تو اور بھی کئی پروگرامس کرسکتی ہے لیکن افطار پارٹیاں کرتے ہوئے بدنظمی کو فروغ دے رہی ہے اور مستحقین کو ان کے حق سے محروم کررہی ہے ۔ ن