حیدرآباد، 31 مارچ (پریس نوٹ)’’ اسلام کا منشا یہ ہے کہ مسلمان ہر حال میں اللہ کی رضا کو پیش نظر رکھے۔ رمضان کے روزے، رات کی تروایح اور تلاوت قرآن انسان کے انداز فکر کی تبدیلی اور تعمیر شخصیت کے لیے ہے،یہ پورے ایک مہینے کا کورس ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ بیس رمضان گزرنے کے باوجود بھی ہماری فکر میں تبدیلی نہیں آتی؟ ہمارے اخلاق کا معیار بلند نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہی ہوگا تو ایسے کئی رمضان آنے اور چلے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ روزے دار کو افطار کے وقت اور خدا سے دیدار کے وقت بے پناہ خوشی ہوتی ہے۔ حضور اکرمؐ نے فرمایا مفہوم: رمضان کے ہر لمحے ایک فرشتہ پکارتا ہے کہ اے خیر، مغفرت اور بھلائی کے چاہنے والے! آگے بڑھ اللہ کا دروازہ کھلا ہے۔ اے شر اور بدبختی اور مسخرے پن کو چاہنے والے! بچ جا‘‘ ۔ان خیالات کا اظہار مولانا ڈاکٹر احسن بن محمد الحمومی امام و خطیب شاہی مسجد باغ عام، نامپلی نے کیا۔ مولانا احسن بن محمد الحمومی نے کہا کہ ہمیں فکر کرنا چاہیے کہ رمضان کے ہر گزرتے لمحہ کے ساتھ ہمیں اپنی عبادتوں میں مزید اضافہ کرنا چاہیے۔ خود حضورؐ کا معمول تھا کہ آپؐ دوسرے عشرے میں پہلے عشرے سے زیادہ عبادتوں میں اضافہ کرتے اور آخری عشرے میں تو اپنے آپ کو مکمل فارغ کرکے اعتکاف میں مشغول ہوجاتے اور مسجد کے حوالے ہوجاتے۔ حضورؐ نے اپنی زندگی میں کبھی اعتکاف میں ناغہ نہیں فرمایا۔ حضرت سیدنا علیؐ نے دعا کی کہ اے اللہ! رمضان میں میرے لیے تھوڑی نیند کافی کردے،تھوڑی نیند میں بشاشت عطا کیجیے۔ حضورؐ رمضان کے آخری ایام میں رات بھر عبادتیں کرتے اور کمر کو کس لیتے۔ ہم بھی عبادتوں کیلئے کمر کس لیں، یہ رسول اللہؐ کی سنت ہے۔ رمضان کے آخری دنوں میں طاق راتیں ہوتی ہیں اور ان طاق راتوں میں سے ایک شب قدر ہے۔ جو کہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ ہزار مہینے تیراسی سال کے برابر ہیں۔مولانا احسن نے کہا کہ اب تو حیدرآباد میں رمضان کو مسخرے پن اور تفریح کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ افطار کی دعوت کا تصور آخر کہاں سے آیا؟ آخر افطار پارٹیوں کے نام پر کیا ہورہا ہے؟ افطار پارٹی کی وجہ سے لوگوں کی سنتیں اور نوافل چھوٹ رہی ہیں۔ فرض نماز بھی برائے نام ادا کی جارہی ہے۔ افطار کو کھیل بنا دیا گیا ہے۔ ہم بے شعوری کے عالم میں مست ہیں۔ یہ سب ایسے وقت ہورہا ہے ؛ جب فلسطین کے بچوں پر قیامت گزررہی ہے،ان پر بم برسائے جارہے ہیں۔ اس کا کچھ تو ہم پاس و لحاظ رکھیں۔ ہمارے نبیؐ اور صحابہؓ نے ہم تک دین کو پہنچایا ہے۔ اب دین کو آئندہ نسلوں تک منتقل کرنا فرشتوں کا نہیں ہمارا کام ہے۔ جو دین آزمائشوں سے گزر کرآیا ، وہ دین ہمیں بنا کسی مشقت کے یوں ہی مل گیا۔ جس کی ہم ناقدری کررہے ہیں۔ اگر یہی رویہ رہا تو ہم ہماری آنے والی نسلوں تک دین کو کیسے پہنچائیں گے؟ ہمارے کردار کو دیکھ کر ہماری نئی نسل کنفیوژہے۔