خواجہ رحیم الدین
رمضان کے مبارک دنوں کا سایہ ہمارے سروں پر آتا رہے۔ یہ مہینہ اُمیدوں کی روشنیوں کا مہینہ رہتا ہے۔ یہ مہینہ بے حد و حساب اجر اور نتائج کا مہینہ ہے۔ اس مہینے نے وہ صبح اور شام دیکھی جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حرا سے قرآن پاک کی نعمت لے کر واپس آئے۔ عوام الناس کی اصلاح اور تزکیہ کیلئے جب ایک مہینے کے روزے ہر ایک پر فرض کرنا مطلوب ہو تو یہ ضروری ہوا کہ اس مہینہ کا تعین کردیا جائے۔ اسلام کا یہ عظیم الشان مہینہ ہے جب ایک مہینے کے روزے ہر ایک پر فرض کرنا مطلوب ہوا تو یہ ضروری ہوا کہ اس مہینے کا تعین کردیا جائے۔ اسلام کا یہ عظیم الشان مہینہ ہے جب ایک مہینے کا تعین ضروری ہوا تو اس مقصد کیلئے اس مہینے سے زیادہ حق کس کا ہوسکتا ہے جس مہینے میں قرآن پاک نازل ہوئی، ملت اسلامیہ کو استحکام و غلبہ حاصل ہوا اورجس میں شب قدر پائے جانے کا امکان غالب ہے۔ رمضان المبارک میں قرآن مجید نازل ہوئی اور اس لئے اس مہینے کو روزے رکھنے کیلئے مقرر کیا گیا، اس امر کو خود قرآن حکیم نے واضح طور پر بیان کیا ہے جو ہم انسانوں کیلئے سراسر ہدایت ہے اور اس واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی کتاب ہے۔ جو شخص اس مہینے کو پائے اس کیلئے لازم ہے کہ وہ پورے مہینے کے روزے رکھے۔ (سورۂ بقرہ)
رمضان المبارک کی ایک رات قوی امکان ہے کہ آخری عشرہ کی کوئی طاق رات اور طلوع سحر کا وقت جب جبرئیل امین ہدایت الٰہی کے نور کی پہلی کرن لے کر غارِ حرا میں داخل ہوئے اور نورِ قرآن سے قلب محمدیؐ کو منور کردیا۔ اس طرح سے رمضان میں نزول قرآن کا یہ دن حیات ملّی کا سب سے اہم اور مبارک دن ہے۔ ملت کے جسد میں روح پھونکی گئی اور عروج و زوال کے سارے سامان نازل کردیئے گئے۔ روزوں کے اس مہینے ہی میں حیات ملّی کے دو اہم واقعات پیش آئے۔ حرا کے پیغام کی حقیقت عیاں کردی گئی۔ ایک واقعہ جنگ ِ بدر کا اور دوسرا فتح مکہ کا، اس مہینے نے وہ دن دیکھا جب بدر کے میدان میں زندگی نے موت پر فتح پائی۔ صرف اہل عرب کیلئے نہیں رہتی۔دنیا تک انسانیت کیلئے یہ دن دکھائے۔ یہ 17 رمضان تھا، جب ندائے حرا پر لبیک کہنے والے فتح یاب ہوئے۔ اس مہینے نے وہ دن بھی دیکھا کہ جب غار حرا سے اُترنے والے اور مکہ سے نکالے جانے والے نبی رحمت ؐ مکہ میں اس شان و شوکت سے داخل ہوئے کہ آپ ؐ کا سَر اوٹنی پر اپنے رب کے آگے جھکا ہوا تھا۔
آخری عشرہ ہے، زکوٰۃ دینے سے اِنکار نہیں کرنا چاہئے، مہینے کے آخری دن تک دیتے رہنا چاہئے۔ مال کی کثرت انسان کی حرص و ہوس کو کبھی کبھار بڑھا دیتی ہے۔ کبھی ایمان کی کمزوری بھی پیش آجاتی ہے۔
عرض ہے ثعلبہؓ بن طالب نے ایک دن رسول اللہ سے عرض کیا: آپؐ اللہ سے دعا فرمائیں کہ مجھے مال و دولت عطا فرمائے۔ رسول اکرم ؐ فرماتے ہیں: اللہ نے تمہیں جتنا دیا ہے، شکر ادا کرو۔ ایک روز بعد پھر ثعلبہؓ بن طالب حاضر ہوئے اور کہا مال و دولت کیلئے دعا فرمائیں تو مَیں یقینا حقداروں کے حق ادا کروں گا۔ آخر ان کی درخواست کو منظور کرکے دعا فرمائی گئی۔ اللہ، ثعلبہؓ کو دولت سے نوازے۔ دعا کے بعد ثعلبہؓ نے بھیڑیں پالیں تو ہزاروں تک بڑھ گئے۔ یہاں تک کہ بھیڑوں کو مدینہ میں جگہ کافی نہیںہورہی تھی۔آخر مدینہ سے دُور چلے گئے۔ دُور ہونے کی وجہ ظہر اور عصر مسجد نبویؐ میں ادا کرتے ، باقی گھر پر کبھی کبھار جمعہ جمعہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ بعد میں وہ بھی چھوٹ گئے۔ ایک دن رسول اللہ نے لوگوں سے ثعلبہؓ کا حال پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ دولت سنبھالنے میں بے حد مشغول ہیں۔جب صدقات کی آیتیں اُتری۔ (سورۂ توبہ : 103) تو آپؐ نے دو آدمیوں کو صدقات وصول کرنے بھیجا اور کہا ثعلبہؓ کے پاس بھی جاؤ جب وہ پہنچے تو وہ کہنے لگے اب میں مصروف ہوں، فرصت نہیں آگے چلے جاؤ، واپسی میں آنا، صدقات حاصل کرنے والی صحابی واپسی میں گئے تو ثعلبہؓ نے کہا یہ نہیں ہوسکتا اب آپ چلے جاؤ، جب صحابی ، رسول اکرم ؐکے پاس پہنچے تو آپؓ دیکھتے ہی کہا: افسوس ثعلبہؓ پر افسوس اس کے بعد سورۂ توبہ کی آیت 75 تا 76 نازل ہوئی۔ ترجمہ: اور ان میں سے بعض آدمی ایسے ہیں کہ اللہ سے عہد کرتے ہیں کہ اللہ ہم کو فضل سے نواز دے تو خوب خیرات کریں گے اور نیک کام کریں گے۔ جب ثعلبہؓ کے رشتہ دار محفل میں موجود تھے تو رسول اللہؐ فرمائے: ثعلبہ ؓ تمہارا صدقہ لینے سے اللہ نے منع کیا ہے۔ ثعلبہؓ پریشان ہوگئے اور سر پر مٹی ڈالنے لگے۔ سیدنا ابوبکرؓ نے بھی قبول نہیں کیا۔ یہاں تک کے سیدنا عثمانؓ ؓنے بھی صدقہ قبول نہیں کیا اور وہ فوت ہوگئے۔
ہم سب رمضان المبارک کا خیال رکھیں۔ ماں و دولت کی تگ و دو کرنے اور جب مل جائے تو زکوۃ و صدقہ ادا کریں۔ زکوۃ ادا نہ کرنا گناہ ہے۔زکوۃ جس سے ہم غافل ہوتے جارہے ہیں۔ مال و دولت وہی اچھی جس سے انسان حقداروں کے حقوق ادا کرتے رہے۔ رمضان کا مہینہ آتے رہے گا اور ہم حق ادا کرتے رہیں گے۔
دولت اللہ کی دی ہوئی بڑی نعمت ہے، اس کا حق ادا کرنے اور اس کو صحیح طور پر استعمال کرنے کی توفیق ہو۔ اللہ کا حکم ہے قریبی رشتہ دار، یتیم، مسکین، مسافر، محتاج، مقروض، دینی و فلاحی کاموں میں خرچ کریں۔ اللہ ہم کو رمضان کی قدر کرنے ، عبادت کرنے ، صدقہ دینے ، روزہ رکھنے والا بنائے اور دین و دنیا میں سرخرو کرے۔ آمین