1914ء میں نصب کردہ نشان غائب، صبغت خان اور انورادھا ریڈی کا ردعمل
حیدرآباد 10 اگست (سیاست نیوز) حیدرآباد کے ہائی فلڈ لیول کے نشانات جوکہ 1908ء کے تباہ کن دریائے موسیٰ کے سیلاب کی ایک سنگین یاد دہانی کے طور پر عمارتوں پر نقش کئے گئے تھے، ان ڈھانچوں کے ساتھ غائب ہورہے ہیں جنھیں نشان زد کیا گیا تھا۔ یہ نشان 1914ء میں نظام کی حکومت کی طرف سے نصب کئے گئے تھے۔ سیلاب کی زیادہ سے زیادہ پانی کی سطح کو ریکارڈ کرنے اور مستقبل کے شہری منصوبہ بندی کی رہنمائی کے لئے پُلوں، عوامی عمارتوں اور ورثے کے مقامات پر کندہ کئے گئے تھے لیکن زیادہ تر اب یا تو ٹوٹ چکے ہیں یا نظرانداز ہوچکے ہیں یا دیکھ بھال نہ ہونے اور پرانے ڈھانچے کے انہدام کی وجہ سے نظر نہیں آتے۔ دریائے موسیٰ میں 27 اور 28 ستمبر 1908ء کو خوفناک سطح تک بڑھ گیا تھا۔ افضل گنج میں 17 فٹ، پرانا پل میں 14 فٹ اور چادرگھاٹ میں 13 فٹ بلند ہوا۔ 28 ستمبر کی دوپہر کو پانی کے کم ہونے سے پہلے ہی ہزاروں افراد ہلاک ہوگئے۔ دیوان دیوڑھی کا نشان مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے جبکہ حسینی علم میں آدھا ٹوٹا ہوا ہے۔ حسینی علم میں بعض مساجد کے نشانات ٹوٹے ہوئے ہیں اور دیوان دیوڑھی کا نشان ختم ہوچکا ہے۔ کچھ کو مکمل طور پر ہٹادیا گیا ہے لیکن ابھی بھی کچھ باقی ہیں اور انھیں محفوظ کیا جانا چاہئے۔ دکن آرچیز کے بانی صبغت خان نے بتایا کہ یہ مارکر کافی اہم ہیں۔ یہ سیلاب کی صفر کی سطح کی نشاندہی کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ مارکر کا مقصد صرف تاریخی نہیں بلکہ عملی تھا۔ سیلاب کے میدانوں پر تعمیرات سے گریز کرنے اور سیلاب کے خطرے کو ذہن میں رکھتے ہوئے شہر کی منصوبہ بندی کرنے کے لئے یاد دلاتا ہے۔ حکومت کے پاس ان نشانوں کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ انٹیک حیدرآباد کی کنوینر پی انورادھا ریڈی نے کہاکہ مارکر حیدرآباد کی تاریخی شناخت کا حصہ ہیں اور انہیں ایچ ایف ایل نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ وہ اب بھی متعلقہ ہیں۔ 1908ء کے سیلاب کی بنیادی وجہ حیدرآباد نے سیلاب پر قابو پانے اور خشک سالی سے نمٹنے کا ایک مناسب نظام تیار کیا جو آج گرمیوں میں بھی پانی فراہم کرتا ہے۔ 1914ء میں حیدرآباد کے ساتویں نظام میر عثمان علی خان نے امپروومنٹ بورڈ قائم کیا اور ایم ویشوریا اور علی نواز جنگ جیسے ماہرین کے مشورے پر دو بڑے آبی ذخائر عثمان ساگر اور حمایت ساگر بنائے۔ اس وقت گنڈی پیٹ اور حمایت ساگر جیسے آبی ذخائر موجود نہیں تھے۔ یہ 1908ء کے سیلاب کے بعد تعمیر کئے گئے تھے تاکہ سیلاب کی روک تھام اور پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔ ہر سال 28 ستمبر کو متاثرین کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ (ش)