روزنامہ سیاست کے 71 سال

   

پہلی قسط

محمد ریاض احمد
ایک ایسے وقت جبکہ پولیس ایکشن نے حاکم قوم کو محکوم بنادیا تھا، حیدرآباد دکن میں حالات یکسر تبدیل ہوچکے تھے۔ تعلیم یافتہ دانشور اور متمول طبقہ پاکستان اور مغربی ممالک منتقل ہورہا تھا۔ مسلمان پریشانیوں و مصائب میں گھرے ہوئے تھے۔ انہیں دلاسہ دینے والا اور یہ بتانے والا کوئی نہیں تھا کہ یہ ملک تمہارا ہے اور جمہوریت میں تمہارے بغیر کوئی فیصلے نہیں کئے جاسکتے۔ اس ملک کی تقدیر کے فیصلے تمہارے بناء مکمل نہیں، اس ملک پر تمہارا اتنا ہی حق ہے جتنا دیگر آبنائے وطن کا ہے۔ تم بھی اس ملک کے قدرتی وسائل کے مالک ہو۔ تمہیں بھی اپنے وطن عزیز کی ترقی و خوشحالی کے لئے دوسرے کے شانہ بہ شانہ کام کرنا ہوگا۔ یہ تمہارا اپنا گھر ہے، یہ تمہارا اپنا چمن ہے جس کی آبیاری تمہاری ذمہ داری ہے۔ ایسے میں مایوسی کے دلدل سے نکلو، حصول علم کے ذریعہ اپنی زندگی کو روشن بناؤ اور یاد رکھو کہ ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزادی دلانے میں تم نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں اور وطن کی آزادی کے لئے اپنی جان و مال کا مثالی نذرانہ پیش کیا ہے۔ تب دکن کے مسلمانوں کو اس طرح ہمت و حوصلہ عطا کرنے کے لئے عثمانیہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل دو طلبہ آگے بڑھے اور پھر ان نوجوانوں نے ایسا کام کیا جسے نہ صرف حیدرآباد دکن بلکہ ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اردو دنیا فراموش نہیں کرسکے گی۔ ان نوجوانوں نے قوم میں شعور بیدار کرنے اور انہیں اپنے وطن کا وارث بنانے کی خاطر باغ صحافت میں ایک ایسا پودا لگایا جو آج ایک تناور درخت میں تبدیل ہوگیا۔
ہاں … قارئین ہم بات کررہے ہیں جناب عابد علی خان مرحوم اور جناب محبوب حسین جگر کی جنہوں نے اپنی اچھی خاصی سرکاری ملازمتوں کو خیرباد کہتے ہوئے 15 اگست 1949 کو ’’روزنامہ نامہ سیاست‘‘ کی بنیاد ڈالی اور آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ اب روزنامہ سیاست 71 سال کا ہوگیا ہے۔ کسی اخبار کے لئے اس قدر طویل عرصہ کوئی معمولی بات نہیں۔ سیاست صرف ایک اخبار ہی نہیں بلکہ ایک تحریک ، کمزوروں و مظلوموں کی آواز بن چکا ہے۔ اخبار سیاست نے سارے ملک میں پاکیزہ صحافت کی ایک ایسی مثال قائم کی ہے جس کے بارے میں عام آدمی سے لیکر دانشوروں اور طلبہ سے لے کر محققین کا یہی کہنا ہے کہ ہندوستان میں ایسے دو اخبارات ہیں جنہوں نے اپنے قیام سے ہی معتبر، باوثوق، غیر جانبدارانہ اور بے باکانہ صحافت کی مثال قائم کی ہے۔ اس ضمن میں وہ انگریزی کے موقر اخبار ’’دی ہندو‘‘ اور روزنامہ سیاست کے حوالے دیتے ہیں۔ قارئین کوئی بھی قوم، جماعت، ادارہ یا تنظیم یوں ہی کامیابی حاصل نہیں کرتے بلکہ سرفہرست مقام پر پہنچنے کے لئے بہت جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ ایک جنون چاہئے ہوتا ہے تب ہی جاکر کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ روزنامہ سیاست کا جس وقت آغاز ہوا اس کے لئے بھی جناب عابد علی خان اور ان کے ساتھ جناب محبوب حسین جگر کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ عابڈس کے قریب صرف 60 روپے کرائے کا ایک شیڈ حاصل کرتے ہوئے اس کے نیچے دفتر سیاست قائم کیا گیا۔ جناب عابد علی خان مرحوم اپنی معیاری انگریزی اور اردو میں غیر معمولی عبور کے باعث حیدرآباد دکن کے دفتر وزیر اعظم میں مترجم کی حیثیت سے خدمات انجام دیا کرتے تھے۔ اردو میں جو مکتوب اور دستاویزات موصول ہوتیں اس کا انگریزی ترجمہ کرتے ہوئے وزیر اعظم تک اس ترجمہ کو پہنچایا جاتا جبکہ جناب محبوب حسین جگر مرحوم کروڑگیری (محکم کسٹمز) میں خدمات انجام دیتے تھے۔
دونوں نے ملازمتوں سے استعفی دے کر ہی روزنامہ سیاست کا آغاز کیا۔ یہ وہ دور تھا جب کوئی بھی اخبار نکالنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس دور میں پیام، ہمارا اقدام، نظام گزیٹ، مشیر دکن اور ملاپ جیسے اخبارات بھی تھے۔ کئی اخبارات نے تو دم توڑ دیا۔ ایسے میں عابد علی خان صاحب نے جگر صاحب سے مل کر ایمانداری اور دیانتداری کے ساتھ سیاست شائع کرنا شروع کیا۔ اس طرح ایک پاکیزہ جذبہ و نیت کے ساتھ شروع کردہ روزنامہ سیاست نے بہت جلد عوامی مقبولیت حاصل کرلی۔ اعلیٰ معیار، صحافتی اقدار، غیر جانبداری، میانہ روی اور معتبر و باوثوق خبریں روزنامہ سیاست کی پہچان بن گئے۔ لوگ ذہنی و قلبی طور پر سیاست کے عادی ہوگئے۔ سیاست آندھراپردیش بالخصوص شہر حیدرآباد فرخندئے بنیاد لوگوں کی زندگیوں کے لئے ضروری بن گیا۔ جہاں تک مشکلات کا سوال ہے ابتدائی 30 برسوں تک جناب عابد علی خان اور جناب محبوب حسین جگر کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک ایسا مرحلہ بھی آیا جب اخبار بند کرنے کی نوبت آئی لیکن جس کے پاس ماں ہوتی ہے کامیابی اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ ایسا ہی کچھ روزنامہ سیاست کے ساتھ ہوا۔ جناب عابد علی خان مرحوم اور جناب محبوب حسین جگر دونوں پریشان ہوگئے۔ ان حالات میں جناب عابد علی خان مرحوم کی والدہ محترمہ نے قیمتی ہیرے جواہرات سے مزین کٹارا بڑی خاموشی سے اپنے نور نظر کے حوالے کردیئے۔ اس طرح ماں کے دیئے ہوئے قیمتی کٹارا نے جناب عابد علی خان کے روزنامہ سیاست کو ایک نئی جان عطا کی جبکہ بڑی ہمشیرہ نے تمام زیورات جناب عابد علی خان کے حوالے کردیئے اور کہا کہ جب حالات سدھر جائیں واپس کردیں۔ دوسری طرف سیاست کی اشاعت کو جاری رکھنے کے لئے جناب عابد علی خان کی اہلیہ محترمہ کے دو مکانات بھی فروخت کرنے پڑے۔ اس کے بعد سیاست مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن رہا جس کا سلسلہ بفضل تعالیٰ آج تک جاری ہے اور انشاء اللہ صحافت کی یہ پاکیزہ سلطنت جاری رہے گی۔