روس۔ یوکرین جنگ اور عالمی معیشت کی تباہی

   

سیاست فیچر
روس ۔ یوکرین بحران نے ساری دنیا میں ہلچل مچا دی ہے۔ سرد جنگ اور پھر دو سوپر پاورس یعنی امریکہ اور روس کے ٹکراؤ نے دنیا کو دو بلاکس میں تقسیم کرکے رکھ دیا تھا۔ ایک بلاک کی قیادت امریکہ کررہا تھا اور دوسرے بلاک کی قیادت سوویت یونین کے ہاتھوں میں تھی لیکن امریکہ نے بڑی ہی ہشیاری اور مکاری کے ساتھ سوویت یونین کو افغانستان میں پھنسا کر رکھ دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بے یارو مددگار افغان مجاہدین نے اس وقت کے سوپر پاور سوویت یونین کو شرمناک شکست سے دوچار کیا۔ اس طرح امریکہ نے جیالے افغان مجاہدین کو استعمال کرتے ہوئے اپنے سب سے بڑے دشمن کا ایک طرح سے خاتمہ کردیا کیونکہ کچھ عرصہ بعد ہی سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ سوویت یونین کے بکھراؤ کے نتیجہ میں جو ملک وجود میں آئے اُن میں یوکرین بھی شامل ہے جس پر روس اپنا دعویٰ کرتا ہے جبکہ یوروپی یونین، یوکرین کو اپنے ساتھ رکھنے کے معاملے میں پرجوش ہیں اور یوروپی یونین کو اسرائیل و امریکہ اور ان کے اتحادیوں کی بھرپور تائید و حمایت بھی حاصل ہے۔ سوویت یونین کی تباہی نے اُسے مجاہدین کی طاقت کا احساس دلایا، وہیں افغانستان پر قابض امریکی و NATO فورسیس کی طالبان کے ہاتھوں ذلت آمیز و عبرت انگیز شکست نے روس کو یہ احساس دلایا کہ امریکہ پہلے جیسا سوپر پاور باقی نہیں رہا۔ طالبان نے افغانستان میں امریکی فورسیس کو شکست دے کر دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہونے سے متعلق امریکی شبیہ کو مسخ کرکے رکھ دیا۔ ماہرین کے مطابق روس۔ یوکرین بحران پر اگر قابو نہیں پایا گیا تو پھر عالمی مارکٹ میں خام تیل کی قیمت 300 ڈالرس فی بیارل ہوجائے گی۔ ایک طرف روس نے جنگ مسلط کرتے ہوئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ان کی اوقات دکھانے کی کوشش کی ہے اور دوسری طرف امریکہ، برطانیہ اور یوروپی یونین روس پر شکنجہ کسنے لگے ہیں۔ امریکہ اور اس کے حلیفوں نے روسی تیل کی برآمد کو محدود کرنے کا اعلان بھی کردیا ہے۔ جواب میں روس نے بھی انتباہ دیا ہے کہ اگر روسی تیل پر پابندی عائد کی جاتی ہے تو وہ یوروپی ممالک کو گیس کی سپلائی بند کردے گا۔
امریکہ نے جو پابندیاں روس پر عائد کی ہیں، وہ دراصل یوکرین کے مطالبہ پر عائد کی ہیں۔ جیسے ہی یوکرین نے عالمی طاقتوں سے روس پر وسیع تر پابندیوں کا مطالبہ کیا، امریکہ نے فوری حرکت میں آکر روس کے تیل، گیس اور کوئلہ پر مکمل پابندی عائد کردی۔ روس کیلئے اچھی خبر یہ ہے کہ برطانیہ جاری سال کے اواخر تک روسی تیل کو مرحلہ وار انداز میں محدود کرے گا جبکہ یوروپی یونین تیل اور گیس کی اپنی درآمدات کو دوتہائی تک کم کردے گی۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ گزشتہ چند دنوں کے دوران عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ اگر روس اپنے تیل کی دیگر ممالک کو برآمد محدود کردیتا ہے تو صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہوگا کہ امریکہ اور سعودی عرب کے بعد روس دنیا میں سب سے زیادہ تیل برآمد کرنے والا ملک ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ روزانہ خام تیل کے تقریباً 50 لاکھ بیارل برآمد کرتا ہے اور ان میں سے 50% سے زیادہ یوروپی ممالک خریدتے ہیں۔ امریکہ بھی روسی تیل استعمال کرتا ہے، لیکن دیگر یوروپی ممالک کی بہ نسبت روسی تیل پر اس کا انحصار بہت کم ہے۔ مثال کے طور پر 2020ء میں امریکہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنی توانائی کی ضروریات کی تکمیل کیلئے روس سے تقریباً 3% خام تیل حاصل کیا تھا۔ سطور بالا میں جیسا کہ ہم نے تحریر کیا ہے کہ روس نے یوروپی ممالک کو گیس کی سپلائی بند کرنے کا انتباہ دیا ہے، یہ ایک خطرہ کی گھنٹی ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر روسی گیس کی سربراہی بند ہوتی ہے تو اٹلی اور جرمنی سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ برطانیہ کو روس 5% گیس سپلائی کرتا ہے جبکہ امریکہ ، روس سے گیس درآمد نہیں کرتا، لیکن سپلائی کی قلت کی وجہ سے نہ صرف برطانیہ بلکہ امریکہ میں بھی گیس کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تمام معاملے میں روس کو پابندیوں میں جکڑنے کے بے شمار اقدامات کئے جارہے ہیں۔ امریکہ نے اپنے حلیف سعودی عرب سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے تیل کی پیداوار میں اضافہ کرے۔ ماضی میں بھی امریکہ نے اسی طرح کے مطالبات کئے تھے اور سعودی عرب سے کہا تھا کہ وہ پیداوار کے ساتھ ساتھ تیل کی قیمتیں کم کریں، لیکن سعودی عرب نے امریکہ کے ان مطالبات کو رد کردیا۔ عالمی سطح پر کئی ایسے ممالک ہیں جہاں تیل کی بہت زیادہ پیداوار ہوتی ہے ، ان ممالک کی ایک تنظیم بھی ہے جسے OPEC یا آرگنائزیشن آف پٹرولیم ایکسپورٹنگ کنٹریس کہا جاتا ہے اور اس تنظیم کے رکن ممالک تیل کی عالمی مارکٹس کو کم از کم 60% تیل برآمد کرتے ہیں۔ روس اگرچہ اوپیک کا حصہ نہیں ہے لیکن سال 2017ء سے وہ اوپیک کے ساتھ کام کررہا ہے جس کا مقصد تیل کی پیداوار محدود کرنا اور تیل پیداوار کرنے والے ملکوں کی آمدنی کو مستحکم بنانا ہے۔ امریکہ دوسری جانب وینیزویلا پر عائد پابندی میں نرمی پیدا کرنے پر بھی غور کررہا ہے ۔ وینیزویلا تیل پیدا کرنے والے اہم ممالک میں شامل ہیں اور ویسے بھی ماضی میں امریکہ وینیزویلا سے کثیر مقدار میں تیل حاصل کیا کرتا تھا، لیکن وینیزویلا چین سے قربت کے بعد اپنا زیادہ تر تیل چین کو ہی فروخت کررہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روس ، یوروپی یونین کو تیل ، گیس اور کوئلہ کی سربراہی بند کرتا ہے تو یوروپی یونین کیا کرے گی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یوروپی ممالک گیس کیلئے قطر کی طرف رجوع ہوسکتے ہیں یا پھر نائجیریا اور الجزائر سے مدد حاصل کرسکتے ہیں۔ برطانیہ میں گھریلو صارفین کیلئے بجلی اور گیس کی قیمتوں کو مستحکم رکھا گیا ہے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اپریل میں 700 پاؤنڈ سے بڑھ کر بجلی اور گیس کی قیمتیں 2000 پاؤنڈ تک ہوسکتی ہیں۔ اسی طرح بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق رواںسال موسم خزاں کے دوران یہ بل 300 پاؤنڈ تک بڑھ سکتے ہیں جب ان قیمتوں کو دوبارہ بڑھایا جائے گا۔ برطانیہ میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بھی بڑھتی جارہی ہیں۔ اگر یہ جنگ جاری رہی تو فی لیٹر پٹرول کی قیمت 175 پینس تک جاسکتی ہے۔ دوسری طرف امریکہ میں بھی پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ صرف ایک ہفتہ کے دوران امریکی پٹرول پمپس پر قیمتوں میں 11% کا اضافہ ہوا ہے۔ اب یہ کہا جارہا ہے کہ روس نے یہ جنگ چھیڑتے ہوئے بہت ہی خطرناک اقدام کیا ہے۔ امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی تنظیمیں یہ الزام لگا رہی ہیں کہ روس اس جنگ میں تھرمو بیرک ہتھیار یا ویاکیوم بم استعمال کررہا ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ نے صدام حسین کی حکومت پر بھی یہ الزام لگایا تھا کہ وہ عام تباہی کے ہتھیار تیار کررہے ہیں، اور اسی بہانے عراق کو تباہ و برباد کردیا گیا اور پھر صدام حسین کو پھانسی دے دی گئی۔ بعد میں امریکی اور برطانوی عہدیداروں نے یہ تسلیم کیا کہ عراق ، عام تباہی کے ہتھیار تیار نہیں کررہا تھا۔ اب امریکہ اور اس کے حلیف روس پر یہ الزام عائد کررہے ہیں کہ یوکرین کے علاقہ سمی میں پیر کو ایک آئیل ریفائنری تباہ کی گئی جس میں تھرموبیرک ہتھیار یا ویاکیوم بم سے دھماکے کئے گئے تھے۔ یہ بم دراصل انسانی جسم کو تحلیل کردیتے ہیں۔ روس پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ یوکرین پر کلسٹر بم بھی برسا رہا ہے حالانکہ دنیا کے کئی ممالک نے کلسٹر بموں کے استعمال کو ممنوع قرار دیا ہے۔ جہاں تک تھرموبیرک یا ویاکیوم بم کا سوال ہے ، یہ اپنے اطراف کے ماحول سے آکسیجن ختم کرکے زیادہ درجہ حرارت پر زور دار دھماکہ کرتے ہیں۔ اس بم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے بعد یہ سب سے طاقتور ہتھیار ہے۔ اس بم کی زد میں آنے والے انسان بہت زیادہ حرارت کے باعث فوری طور پر تحلیل ہوکر بھانپ بن جاتے ہیں اور اس کا وجود مکمل طور پر ختم ہوجاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ صرف اس کی آواز سے انسانوں کے پھیپھڑے پھٹ جاتے ہیں۔