روس۔ یوکرین جنگ اور ہندوستان کی مجبوریاں

   

رام چندر گوہا
روس۔ یوکرین جنگ اب 5 ویں ماہ میں داخل ہوگئی ہے۔ 5 ماہ قبل روسی دبابے یوکرینی علاقوں میں داخل ہونا شروع ہوئے تھے اور پہلے روسی لڑاکا طیاروں نے یوکرینی ٹائونس اور مواضعات پر بموں کی بارش شروع کی۔ یہ جنگ ایک خونی جنگ ثابت ہورہی ہے۔ ایک ایسی جنگ جس میں انسانوں کا خون بہایا جارہا ہے۔ اس جنگ میں تاحال 2000 روسی سپاہی اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے ہیں اور مرنے والے ان روسی فوجیوں کی تعداد جنگ کی نذر ہوچکے یوکرینی سپاہیوں کی تعداد سے دوگنی ہے۔ جبکہ اسی جنگ میں جو شہری ہلاک ہوئے ہیں ان کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔ روس کے حملوں نے لاکھوں یوکرینی باشندوں کو اپنے مکانات، اپنے شہروں، اپنے صوبوں اور اپنے ملک کو چھوڑ کر فرار ہونے کے لیے مجبور کیا ہے اور یہ لوگ دوسرے ملکوں میں عارضی یا مستقل پناہ گزینوں کی حیثیت سے زندگی گزاررہے ہیں۔ اس جنگ نے یوکرین کی معیشت بھی تباہ کرکے رکھدی ہے۔ جنگ ختم ہونے پر ماضی کا شاندار موقف حاصل کرنے برسوں درکار ہوں گے۔ اس جنگ نے صرف یوکرین، یوکرینی عوام اور اس کی معیشت کو تباہ نہیں کیا بلکہ عام روسی شہریوں کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ مغربی ممالک کی جانب سے روس پر عائد کردہ پابندیاں ہیں۔ روسی صدر ولادمیر پوٹین کی شروع کردہ اس جنگ کی قیمت روسی عوام کو چکانی پڑرہی ہے۔
بحیثیت انسان اس تنازعہ یا جنگ کے نتائج اور روسی فوج کی ظالمانہ کارروائیوں ان کی جانب سے یوکرینی شہروں کی بنیادی سہولتوں کی تباہی اور اسپتالوں و شہری پناہ گاہوں پر ان کی بمباری دیکھ کر دہشت اور وحشت طاری ہوجاتی ہے۔ روسی فوجیوں نے یوکرینی خواتین کو بھی نہیں چھوڑا انہیں اپنے حملوں کا نشانہ بنایا جبکہ ایک ہندوستانی شہری کی حیثیت سے اس جنگ کو دیکھتے ہوئے میں اپنی حکومت کی کمزوری سے مایوس ہوگیا ہوں۔ حکومت ہدن نے یوکرین پر روشی قبضہ کی مذمت سے انکار کیا اور روسی مظالم پر خاموشی اختیار کی۔
جہاں فروری کے اواخر میں جنگ شروع ہوئی، اگرچہ مارچ کے ماہ میں حکومت ہند کے لیے انتظار کرو اور دیکھو کی پالیسی اپنانا ضروری ہوگیا یہ واضح نہیں ہوسکا کہ جنگ کب تک جاری رہے گی۔ یہاں تک کہ روس اور یوکرین تنازعہ کے خاتمہ کے لیے باہمی گفت و شنید کی باتیں بھی سامنے آئی۔ اس وقت یوکرین میں زیر تعلیم طلبہ کی واپسی اولین ترجیح بن کر رہ گئی تھی تاہم مارچ کا مہینہ ختم ہوا، اپریل کا مہینہ آیا اور پھر اپریل بھی رخصت ہوکر مئی میں تبدیل ہوگیا۔ روسی فوجیوں کی ظالمانہ کارروائیوں میں کوئی کمی نہیں آئی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ حکومت ہند نے کسی بھی فریق کی تائید و حمایت سے گریز کیا لیکن اسے ایک طویل مدت تک غیر جانبدارانہ موقف برقرار رکھنا نہیں چاہئے تھا۔ یہ بھی واضح ہو گیا کہ روس نے یوکرین کے خلاف جس جارحیت کا مظاہرہ کیا وہ دراصل مغربی ممالک کے اشتعال انگیز بیانات کا نتیجہ تھا۔ مغربی ممالک نے صرف کھوکھلے دعوے کئے۔ کھوکھلے بیانات جاری کرنے پر اکتفا کیا۔ جہاں تک میرا احساس ہے اور جو میرے نقطہ نظر سے اتفاق کرتے ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ پوٹن نے یوکرین پر صرف اس لیے جنگ مسلط نہیں کی کہ یوکرین کو NATO میں شمولیت سے روکا جائے بلکہ پوٹن نے یہ جنگ یوکرینی باشندوں کو حکم عدولی کا سبق سکھانے کے لیے مسلط کی ہے۔
صدر پوٹن اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ یوکرینی باشندے حقیقیت میں روسی ہیں ایسے میں انہیں اپنے مادر وطن (روس) سے متحد ہونے اور وفاداری کی ضرورت ہے اور ضرورت پڑنے پر طاقت کے زور پر ہی کیوں نہ ہو انہیں روس میں شامل کیا جائے گا۔ اگر دیکھا جائے تو موجودہ جنگ سے یہ ظاہر ہوگیا کہ یوکرینی باشندوں میں قوم پرستی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ہندوستان جس نے خود ایک سامراجی طاقت کے خلاف آزادی کی کامیاب تحریک چلاکر آزادی پائی تھی، ویتنامی باشندوں کی اس وقت تائید، حمایت کی جب وہ پہلے فرانس سے آزادی چاہ رہے تھے اور بعد میں امریکی جارحیت کے خلاف مزاحمت کررہے تھے۔ 1960ء میں ہندوستان کے امریکہ کی معاشی و فوجی امداد پر انحصار کے باوجود اس نے جنگ کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا اور ہم نے یہ کہنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کہ امریکی حکومت نے ویتنام میں جو کچھ کیا وہ اخلاقی اور سیاسی دونوں طور پر غلط تھا۔ اسی طرح ہم یہاں مشرقی پاکستان یعنی بنگلہ دیش کی آزادی کی مثال بھی پیش کرسکتے ہیں۔ 1970ء کے دہے میں وہاں کے لوگوں کے ساتھ معاشی سماجی اور سیاسی امتیاز برتا گیا، استحصال کیا گیا اور خاص طور پر جب سیاسی طور پر دبایا گیا تو ان لوگوں نے بنگالی قوم پرستی کے ذریعہ ایک علیحدہ ملک حاصل کیا جبکہ اسلام آباد میں فوجی قیادت اس بات پر زور دیتی رہی کہ مشرقی بنگالی پہلے پاکستانی اور بعد میں سب کچھ ہیں چنانچہ ان لوگوں نے بنگالیوں کو باغی قرار دیتے ہوئے بغاوت کو کچلنے کے نام پر ناقابل تصور مظالم ڈھائے جس کے نتیجہ میں ہندوستان کو مداخلت کرنی پڑی۔ اس طرح ایک علیحدہ ملک بنگلہ دیش کی تخلیق عمل میں آئی۔ اب یوکرین اور روس کا بھی یہی حال ہے۔ یوکرینی باشندے روس کے لیے ایسے ہی ہیں جیسے مشرقی پاکستان کے بنگالی پاکستان کے لیے تھے۔ جہاں تک روس۔ یوکرین جنگ میں ہندوستان کے موقف کا سوال ہے ایسا لگتا ہے کہ اس کی سب سے بڑی وجہ ہندوستان کا اسلحہ کی سربراہی کے لیے روس پر انحصار ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ حکمران جماعت کے نظریہ سازوں کو یہ خوف لاحق ہے کہ اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ یوکرینی باشندوں کو ایک آزاد ملک میں رہنے، ایک آزاد قوم ہونے کا حق حاصل ہے تو پھر چند لوگ کشمیریوں اور ناگائوں کا کیس بھی اسی طرح پیش کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی مودی حکومت کی کئی مجبوریاں ہیں جو اسے یوکرین کی تائید و حمایت سے روک رہی ہیں۔ ویسے بھی ہندوستان نے جب روس سے تیل کی خریدی کا اعلان کیا، امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں نے اس پر اعتراض کیا جبکہ ہمارے وزیر خارجہ نے یہ کہتے ہوئے ان پر تنقید کی کہ سارا یوروپ روس کی فراہم کردہ گیس پر انحصار کرتا ہے لیکن اسے ہندوستان کے روس سے تیل حاصل کرنے پر اعتراض ہے۔