حکومت ہند توانائی کی پالیسی کا فیصلہ کسی دباؤ میں آئے بغیر آزادانہ طریقے اور خود مختاری سے کرے گی
نئی دہلی ۔2؍اگست ( ایجنسیز) انڈین آئل ریفائنریز اب بھی روس سے بڑی مقدار میں خام تیل خرید رہی ہیں جب کہ مغربی ممالک اور امریکہ کا دباؤ برقرار ہے۔ لیکن ہندوستانی حکومت کے ذرائع نے واضح کیا کہ یہ فیصلہ خالصتاً تجارتی، اقتصادی اور تزویراتی وجوہات کی بنا پر کیا گیا ہے۔ اس میں تیل کی قیمت، گریڈ، اسٹوریج کی سہولت اور لاجسٹکس جیسے عوامل کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ہندوستان اپنی توانائی کی ضروریات کا تقریباً 85 فیصد درآمد کرتا ہے اس لیے اسے سستی اور پائیدار سپلائی کی ضرورت ہے۔ روس اس ضرورت کو مؤثر طریقے سے پورا کر رہا ہے۔روس دنیا کا دوسرا سب سے بڑا خام تیل پیدا کرنے والا ملک ہے۔ یہ روزانہ تقریباً 9.5 ملین بیرل تیل پیدا کرتا ہے اور 4.5 ملین بیرل تیل اور 2.3 ملین بیرل ریفائنڈ مصنوعات برآمد کرتا ہے۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ اگر روسی تیل پر مکمل پابندی لگائی جاتی ہے تو تیل کی عالمی منڈی میں اتھل پتھل مچ سکتی ہے۔ہندوستان کا کہنا ہے کہ اگر اس نے روسی تیل کو رعایتی نرخوں پر نہ اپنایا ہوتا تو تیل کی قیمتیں، جو مارچ 2022 میں 137 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی تھیں مزید بڑھ سکتی تھیں۔حال ہی میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک بیان میں کہا کہ ہندوستان کو روس سے تیل خریدنا بند کر دینا چاہیے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ایک اچھا قدم ہوگا۔ اس کے جواب میں ہندوستان نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ وہ قومی مفادات کو مقدم سمجھتا ہے اور بین الاقوامی قوانین کی مکمل پاسداری کرتا ہے۔ہندوستان فی الحال ایران اور وینزویلا جیسے ممالک سے تیل نہیں خرید رہا ہے کیونکہ ان پر براہ راست امریکی پابندیاں ہیں۔ لیکن روس پر ایسی کوئی عالمی پابندی نہیں ہے۔ صرف جی 7 اور یوروپی یونین نے پرائس کیپ میکانزم کو نافذ کیا ہے جو کہ قانونی پابندی نہیں بلکہ ایک متبادل مالی اقدام ہے۔ہندوستان نہ صرف اپنے لیے بلکہ عالمی توانائی کے استحکام کیلئے بھی ایک ذمہ دار پارٹنر کا کردار ادا کر رہا ہے۔ ہندوستان کی حکمت عملی نے مارکیٹ میں لیکویڈیٹی برقرار رکھی، تیل کی قیمتوں کو مستحکم کیا اور افراط زر کو کنٹرول کرنے میں مدد کی۔ہندوستان نے بارہا واضح کیا کہ وہ اپنی توانائی کی پالیسی کا فیصلہ کسی دباؤ میں آئے بغیر آزادانہ طریقے سے اور خود مختاری سے کرے گا۔