دبئی۔29فبروری ۔(سیاست ڈاٹ کام) ترکی کے صدر رجب طیب اُردغان نے اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ادلب میں ’’اُن کے راستے سے ہٹ جائیں ‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ بعض فریقوں نے ہماری جنوبی سرحد پر دہشت گرد راہداری کے ذریعے ترکی کا گھیرا ڈالنے کی کوشش کی۔ اُردغان کے مطابق انقرہ حکومت شامی حکومت پر دباؤ بڑھائیگی۔ انہوں نے کہا کہ شامی حکومتی فورسز کے 2000 سے زیادہ عناصر مارے جا چکے ہیں۔ اُردغان کا کہنا تھا کہ اگر شمالی شام میں دہشت گرد تنظیموں پر قابو نہ پایا گیا تو ہم ترکی میں ان سے لڑنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ترکی کے صدر نے یورپ کو دھمکی دی کہ وہ مہاجرین کیلئے سرحدوں کو کھلا رکھیں گے۔ اُردغان کے مطابق اس وقت ایک ہزار پناہ گزین سرحد پار کرنے کے منتظر ہیں۔ انہوں نے دو ٹوک انداز میں واضح کر دیا کہ پناہ گزینوں کو امداد پیش کرنے کے حوالے سے اب یورپی وعدوں کا اعتبار نہیں رہا۔ اُردغان نے ترکی کی جنوبی سرحد پر دس لاکھ سے زیادہ شامی شہریوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ترکی اس وقت 3.6 ملین شامیوں کی میزبانی کر رہا ہے اور اب ہمارے پاس مزید مہاجرین کو کھپانے کی گنجائش نہیں ہے۔اُردغان نے مزید کہا کہ ترک فوج بشار الاسد کی دعوت پر شام میں داخل نہیں ہوئی بلکہ وہ شامی عوام کی دعوت پر وہاں گئی۔ ترکی کے صدر کے مطابق ان کا ملک شام کی اراضی یا اس کے تیل پر نظر نہیں رکھتا۔روسی وزارت خارجہ نے ہفتے کے روز ایک بیان میں باور کرایا ہے کہ حالیہ دنوں میں روسی اور ترک اعلی عہدے داران کے درمیان ملاقاتوں میں دونوں ملکوں نے شام میں ’’جارحیت میں کمی‘‘ کے حوالے سے امید کا اظہار کیا۔ فریقین نے بات چیت میں زمینی طور پر جارحیت پر روک لگانے اور دہشت گردوں کے انسداد کا سلسلہ جاری رکھنے پر توجہ مرکوز رکھی۔اقوام متحدہ میں روسی سفیر ویسلے نبینزیا نے جمعہ کے روز سلامتی کونسل کے سامنے اعلان کیا تھا کہ روس شمالی مغربی شام میں ادلب کے علاقے میں جارحیت کم کرنے کے تمام خواہش مند فریقوں کے ساتھ کا کرنے کیلئے تیار ہے۔ سفیر کے نزدیک سلامتی کونسل شام کے حوالے سے بہت اجلاس منعقد کر رہی ہے تاہم اس بات کا اقرار کرنا ہو گا کہ ادلب میں ’’صورتحال خراب اور انتہائی کشیدہ ہو گئی ہے‘‘۔سلامتی کونسل کا یہ ہنگامی اجلاس برطانیہ، امریکہ، جرمنی، فرانس، بیلجیم، اسٹونیا اور ڈومینیکن ریپبلک کی درخواست پر منعقد ہوا۔ اجلاس میں نبینزیا نے بتایا کہ اس وقت صورت حال کو ٹھنڈا کرنے کیلئے روس کا ایک وفد انقرہ میں موجود ہے۔رواں ماہ فروری کے آغاز کے بعد سے شام کے حوالے سے یہ سلامتی کونسل کا چھٹا اجلاس تھا۔ اجلاس میں روسی سفیر نے ایک بار پھر باور کرایا کہ شامی حکومت کی جانب منسوب جمعرات کے روز ہوئے حملوں میں روس شریک نہیں تھا۔