روس ۔ یوکرین جنگ تاحال 2 لاکھ اموات

   

محمد ریحان
روس ۔ یوکرین جنگ کے عالمی معیشت پر کئی ایک منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جس کے نتیجہ میں مغربی ملکوں میں مہنگائی اپنے نقطہ عروج پر پہنچ چکی ہے، خاص طور پر برطانیہ میں زندگی کے ہر شعبہ میں اثر پڑا ہے اور قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ آپ کو بتادیں کہ روس ۔ یوکرین جنگ کا آغاز ہوئے 382 دن ہوچکے ہیں اور اس عرصہ میں یوکرین میں جو تباہی و بربادی ہوئی، روسی و یوکرینی فوجیوں کی ہلاکتیں ہوئیں، دنیا کی معیشت پر اس کے جو اثرات مرتب ہوئے ہیں، اس پر عالمی برادری کا سنجیدگی سے غور کرنا ضروری ہے، ورنہ یہ جنگ تیسری عالمی جنگ میں بھی تبدیل ہوسکتی ہے اور اس کے نمایاں آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ یوکرینی فوج کا دعویٰ ہے کہ Bakhmut پر اس نے روسی فوج کے کم از کم 95 حملوں کو ناکام بناکر روسی فوج کو پسپا کردیا ہے۔ اس علاقہ میں حالات بہت سنگین ہیں۔ یوکرین کے فوجی تجزیہ کار اولے زیدانوف کے مطابق اس علاقہ میں حالات نہایت ہی سنگین رخ اختیار کرتے جارہے ہیں۔ اسی دوران روس کی خانگی فوج یا ملیشیا کی واگنرمرسیزیز فورس نے انتباہ دیا ہے کہ مشرقی یوکرین کے شہر Bakhmut کے اطراف و اکناف اس کا موقف خطرہ میں ہے۔ اگر ان کی فورسیس کو ہتھیار نہیں پہنچائے جائیں تو پھر اس خطرہ میں زبردست اضافہ ہوگا۔ اس طرح کے بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ کریملن اور خانگی فوج یا کرایہ کی فوج کے سربراہ کے درمیان اختلافات اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئے ہیں اور ان کے درمیان تناؤ کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ فوجی ماہرین کا خیال ہے کہ اگرواگنس ملیشیا کو Bakhmut میں پسپائی ہوتی ہے تو سارا فوجی محاذ تاش کے پتوں کی طرح بکھرسکتا ہے اور روسی مفادات کی نگہبانی کرنے والی تمام خانگی (کرایہ کی)فورسیس کیلئے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ یہ بھی رپورٹس منظر عام پر آئی ہیں کہ روس کی 155 ویں بریگیڈ کے سینئر عہدیداروں نے کیو میں حملہ کرنے سے متعلق حکم ماننے سے انکار کردیا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ترکی اس بات کی سفارتی کوششوں میں مصروف ہے کہ یوکرین میں اشیائے ضروریہ بالخصوص اناج پہنچانے کیلئے بندرگاہوں کو کھولا جائے کیونکہ روس نے کئی بندرگاہوں کو بند کردیا جس سے اناج یوکرین میں پہنچانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسری طرف جرمن چانسلر اولاف شولز (Olaf Scholz) اور یوروپین کمیشن کے صدر ارسلا واٹڈر لے اپن نے اس دعویٰ کو دہرایا ہے کہ چین، اس جنگ میں روس کی بھرپور تائید کررہا ہے، لیکن تاحال اس بات کے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ وہ روس کو مہلک ہتھیار فراہم کرنے کا منصوبہ بنارہا ہے۔ اگرچہ امریکہ اور اس کے اتحادی روس پر پابندیاں عائد کرتے جارہے ہیں، لیکن جرمنی کے بارے میں یہ اطلاعات آرہی ہیں کہ وہ روس پر عائد پابندیوں کے نفاذ میں سست پیشرفت کررہا ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ امریکہ نے یوکرین کو لڑاکا طیارہ بھیجنے کے بارے میں ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ وہ یوکرین کو ریموٹ کے ذریعہ کنٹرول کئے جانے والے عصری ڈرونس بھی سپلائی کرنے پر غور کررہا ہے۔ آپ کو یاد دلادیں کہ 24 فروری 2022ء کو اس جنگ کا آغاز ہوا۔ UNCHR کے مطابق یوکرین میں مرنے والے شہریوں اور غیرمسلح افراد کی تعداد 8.1 ہزار ہے۔ دوسری طرف یہ اطلاعات بھی ہیں کہ اس جنگ میں مرنے یا پھر زخمی ہونے والے روسی سپاہیوں کی تعداد 2 لاکھ تک پہنچ گئی ہے لیکن امریکہ کا اندازہ ہے کہ اس جنگ میں فریقین کی طرف سے 2 لاکھ فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ امریکہ کے ایک سینئر فوجی عہدیدار کا دعویٰ ہے کہ یوکرین۔ روس جنگ میں اب تک ایک لاکھ روسی اور ایک لاکھ یوکرینی ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔ صدرنشین امریکی جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملے کے مطابق اس جنگ کے نتیجہ میں تاحال 40 ہزار شہری اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے جبکہ مغربی عہدیداروں نے جو اندازہ لگایا ہے، وہ ظاہر کردہ اعداد و شمار سے کہیں زیاد ہے جبکہ ماسکو نے گزشتہ سال ستمبر میں کہا تھا کہ اس جنگ میں اس کے صرف 5,937 فوجی ہلاک ہوئے۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ 1979-89ء افغان جنگ میں روسی فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ دس برسوں میں صرف 15 ہزار روسی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔جبکہ وہ تعداد بہت زیادہ تھی۔ دوسری جانب پچھلے سال اگست میں یوکرینی مسلح فوج کے کمانڈر انچیف Valariy Zaluzhniy کے حوالے سے بتایا تھا کہ 9,000 یوکرینی سپاہی اب تک مارے گئے ہیں۔ جنرل ملے اس جنگ کے نتیجہ میں عوام کی پریشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ 24 فروری 2022ء سے 15 اور 30 ملین کے درمیان پناہ گزین منظر عام پر آئے جبکہ اقوام متحدہ کا دعویٰ ہے کہ صرف یوکرین سے 7.8 ملین پناہ گزینوں نے یوروپ میں پناہ لی ہے۔