رِشی سونک کا جشن ہم کیوں منا رہے ہیں ؟

   

روش کمار
نئے برطانوی وزیراعظم رشی سونک (Rishi Sunak)کو لے کر ہندوستان میں زبردست جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ اس معاملے میں حکمراں بی جے پی بہت آگے دکھائی دیتی ہے۔ وزیراعظم سے لے کر عام سیاست داں، اپوزیشن جماعتوں کے قائدین، فلم اداکار اور مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے رشی سونک کو مبارکباد دینے میں ایک دوسرے پر بازی لے جارہے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہم کس بات کا جشن منا رہے ہیں۔ ہندوستانی نژاد رشی سونک کے وزیراعظم برطانیہ بننے کا یا پھر اس بات کا جشن منا رہے ہیں کہ وہاں کی جمہوریت کس قدر پختہ ہے۔ برطانیہ میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون کیا ہے، کس ملک سے تعلق رکھتا ہے، کس ملک میں اس کی پیدائش ہوئی، وہ وزیراعظم بن سکتا ہے، چاہے وہ کچھ بھی ہو اور اس کے دادا کا تعلق کسی ملک سے کیوں نہ ہو۔ اس کے وزیراعظم بننے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی نہیں کی جاتی اور وہاں یہ بھی نہیں کہا جاتا کہ کوئی شخص اس لئے وزیراعظم کے عہدہ پر فائز نہیں ہوسکتا کہ وہ بیرونی نژاد ہے۔ آج ہمارے ملک میں رشی سونک کے برطانوی وزیراعظم بننے پر جشن منانے والے آیا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جمہوریت ، برطانوی جمہوریت جیسی ہونی چاہئے جہاں کوئی بھی کسی بھی ملک سے آکر وزیراعظم بن سکتا ہے۔چاہے اس کا مذہب کچھ بھی کیوں نہ ہو، اس کا رنگ اس کی ذات پات انگریزوں سے مختلف کیوں نہ ہو۔ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ہندوستانی جمہوریت کا بھی ایسے ہی جشن منا سکتے ہیں؟ رشی سونک کے برطانوی وزیراعظم بننے کا ایک ایسے ملک میں جشن منایا جارہا ہے جہاں ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کی آبادی میں اضافہ سے متعلق خوف پیدا کیا جاتا ہے۔ آبادی پر کنٹرول کیلئے قانون کے نام پر اقلیتوں میں احساس عدم تحفظ پیدا کیا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ آبادی سے متعلق غلط بلکہ جھوٹے و فرضی اعداد و شمار کا سہارا لے کر یہ بتایا جاتا ہے کہ اس ملک میں جلد ہی اکثریت اقلیت میں تبدیل ہوجائے گی اور اقلیت اکثریت میں آجائے گی۔ ایسے میں ملک خطرہ میں ہے اور اکثریتی طبقہ کے مذہب کو خطرہ لاحق ہے۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ایک جشن کا ماحول ہے، وہ اس لئے کہ خود کو ہندو کہنے والے رشی سوناک، برطانیہ کے وزیراعظم بن رہے ہیں۔ برطانیہ ایک عیسائی اکثریت والا ملک ہے۔ ایسے میں ہندوستانی سیاست اور مذہب کے نام پر سیاسی کھیل کھیلنے والے سیاست دانوں سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ آیا ہندوستان سے اس قسم کی سیاسی فیاضی کی توقع کی جاسکتی ہے؟ بی جے پی لیڈر اس بارے میں کئی ایک وضاحتیں کررہے ہیں۔ کیا وہ اس بات کا جواب دے سکتے ہیں کہ ان کی جماعت بی جے پی اسمبلی اور پارلیمنٹ کے انتخابات میں مسلمانوں کو ٹکٹ نہیں دیتی۔ کیا وہ کسی مسلمان کو ہندوستان کے عہدۂ وزارت عظمیٰ پر فائز کرسکتی ہے؟ ایسے وقت جبکہ برطانوی معیشت تباہی و بربادی کے دور سے گذر رہی ہے۔ برطانیہ ،جنگ و جدال کے خوف میں گھرا ہوا ہے۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ ہندوستانی نژاد ایک شخص کو عہدہ وزارت عظمی پر فائز کیوں کیا گیا، اس کے نتیجہ میں برطانیہ کی سلامتی خطرہ میں پڑ جائے گی۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ کئی ایک ملک رشی سونک کے خاندانی پس منظر پیش کرنے میں مصروف ہیں۔ پاکستان کے نیوز کی سرخی کچھ اس طرح ہے ’’پاکستانی نژاد ہندو برطانیہ کا وزیراعظم بننے جارہا ہے۔ جیو نیوز نے اپنی رپورٹ میں رشی سونک کو پاکستانی نژاد قرار دینے کیلئے مزید لکھا کہ رشی سونک کے دادا دادی پاکستانی صوبہ پنجاب کے گجرانوالہ میں پیدا ہوئے اور 1935ء میں ان کے دادا رام داس سونک گجرانولہ کو خیرباد کہہ کر نیروبی منتقل ہوگئے اور پھر رام داس کی اہلیہ (رشی سونک کی دادی) سہاگ رانی سونک گجرانوالہ سے دہلی منتقل ہوئیں اور پھر اپنی ساس کے ہمراہ کینیا چلی گئیں اور پھر رام داس کے فرزند پشویر 60ء کے دہے میں برطانیہ آئے۔ پاکستانی اخبار ’’ڈان‘‘ نے بھی رشی سونک کے پاکستانی نژاد ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کے دادا دادی پاکستان سے آفریقہ اور آفریقہ سے برطانیہ منتقل ہوئے۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق سونک کا وزیراعظم برطانیہ بننا ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کیلئے باعث فخر ہے۔ وہ پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستانی بھی ہیں۔ اخبار ’’ٹیلیگراف‘‘ نے بہت خوب لکھا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں ملک رشی سونک کے حسب نسب کے دعوے کرنے لگے ہیں۔ آپ کو یاد دلادوں کہ نڈر و بے باک صحافی آنجہانی ونود دُوا بھی گجرانوالہ سے ہجرت کرکے ہندوستان آئے تھے۔ بہرحال اب ہندوستان ، پاکستان کے ساتھ ساتھ کینیا بھی دعویٰ کررہا ہے کہ رشی سونک کا تعلق ہمارے ملک سے ہے۔ رشی سونک کے بارے میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ایک طرف ہندوستان ، پاکستان اور کینیا ان سے اپنے تعلق کو جوڑنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کررہے ہیں، دوسری طرف امریکہ خاموش ہے۔ حالانکہ کچھ عرصہ قبل تک وہ بھی امریکی گرین کارڈ کے حامل تھے۔ دراصل ان کی شادی اِنفوسس کے شریک بانی نارائن مورتی کی بیٹی اکشیتا سے ہوئی جو بنگلور کی رہنے والی ہے۔ شادی کے بعد رشی امریکہ منتقل ہوگئے اور مستقل سکونت اختیار کرلی۔ برطانیہ میں پیدائش کے باوجود امریکہ میں مقیم ہونے سے وہ گرین کارڈ حاصل کرتے ہیں تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ رشی سونک جغرافیائی حالات اور ملک کو کیسے دیکھتے ہوں گے۔ آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ رشی نے نہ صرف امریکی گرین کارڈ حاصل کیا بلکہ برطانوی سیاست میں داخل ہونے کے کئی برسوں تک اس راز کو راز میں ہی رکھا۔ حد تو یہ ہے کہ 6 برسوں تک رکن پارلیمنٹ رہے، لیکن گرین کارڈ واپس نہیں کیا ۔ یہاں تک کہ 19 ماہ وزیر خزانہ برطانیہ کے عہدہ پر فائز رہنے کے باوجود بھی گرین کارڈ واپس کرنے سے گریز کیا تاہم اپریل میں جب یہ مسئلہ اُٹھایا گیا تب انہوں نے بتایا کہ وزیر خزانہ کی حیثیت سے دورۂ امریکہ کے موقع پر انہوں نے اپنا گرین کارڈ واپس کیا۔ رشی سونک اور ان کی اہلیہ پر الزام ہے کہ دونوں نے ٹیکس چوری کی ہے۔ ویسے بھی رشی سونک کے بارے میں عام خیال یہی ہے کہ وہ امیروں کے حامی ہیں۔ ان سے دولت مندوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ اب برطانیہ کی کمزور ہوتی معیشت کو کس طرح سنبھالیں گے اور عوام کو کمر توڑ مہنگائی سے کیسے بچائیں گے۔