پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)
راقم الحروف اس کالم کا آغاز اس ناقابل تسخیر بنیاد پر کرتا ہے کہ ہندوستان ریاستوں کا ایک اتحاد ہے۔ یعنی یونین آف اسٹیٹس ہے، یہ ریاست (جموں و کشمیر کو چھوڑکر) دستور ہند کے پہلے شیڈول میں درج ہیں جہاں تک وفاق اور وفاقیت کا سوال ہے۔ وفاقیت کا جوہر اس حقیقت میںمضمر ہے کہ انگریزوں کے زیر حکمرانی رہے صوبے (ریاستیں) اور دیہی ریاستیں (جہاں راجہ رجواڑوں اور نوابوں کی حکومتیں ہواکرتی تھیں) رضاکارانہ طور پر انڈین یونین کا ایک حصہ بننے پر رضامندی ظاہر کی تھی اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ وہ ریاستیں لسانی خطوط پر دوبارہ منظم ہوئی کیونکہ یہ ایک اٹل حقیقت ہیکہ ریاست محض ایک انتظامی اکائی نہیں ہوتی۔ اس کی اپنی لسانی حیثیت ہوتی ہے۔ اس کی اپنی تاریخی تہذیبی ثقافتی اور سیاسی شناخت ہوتی ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم کتنے وفاق میں یقین رکھنے والے ہیں۔ ہندوستان حقیقت میں ایک وفاق ہے جس میں دستور کی کچھ دفعات وفاقی کردار کو بڑا کرتی ہیں یا وسعت دیتی ہیں اور کچھ دفعات اسے محدود کرتی ہیں لیکن اس میں کوئی فائدہ نہیں ہے کہ اس کے آغاز میں دستور ہند نے ایک وفاق پر مبنی ملک کا تصور کیا تھا۔ اس ضمن میں اپنے استدلال کو تقویت دینے کے لئے میں دفعہ 368(2) کا حوالہ دیتا ہوں جس کے تحت پارلیمنٹ کی طرف دستورمیں کی جانے والی کچھ ترامیم کو قانون بننے سے پہلے ریاستی مقننہ کے نصف سے زائد ارکان کی جانب سے توثیق کرنا ضضروری ہے۔ یہاں ایک اور اہم بات میں آپ کو بتادوں کہ پارلیمنٹ کا ترمیمی اختیار تنازعہ کا موضوع رہا ہے، بالآخر سپریم کورٹ نے کیشو آنند بھارتی (1973) میں برقرار رکھا اور فروا ملز (1980) میں اس کی دوبارہ تصدیق کی کہ دستور کے بنیادی ڈھانچہ یا خصوصیات کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ کیشو آنند بھارتی ایس آر بومائی اور دیگر مقامات میں سپریم کورٹ نے اعلان کیا کہ وفاقیت دستور کی بنیادی خصوصیت ہے۔ یہ وفاقیت کی فتح ہے قانون کے بارے میں عدالت کے اعلان یا فیصلہ کے باوجود مرکزی حکومت نے وفاقیت کو دور کرنے اور اس سے دوری اختیار کرنے کے طریقے تلاش کئے ہیں۔ ریاست کے اختیارات میں عاملہ، مقننہ اور مالیاتی اختیارات شامل ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ بی جے پی حکومت نے ان اختیارات کو کس طرح ختم کیا۔
عاملہ : دستور کی دفعات 154 اور 162 کے تحت ریاست کو عاملانہ اختیارات حاصل ہے اور یہ ان تمام معاملات تک وسعت اختیار کیا ہوا ہے جن کے حوالے سے ریاستی مقننہ کو قانون سازی کا اختیار حاصل ہے۔ جہاں تک پولیس کا سوال ہے پولیس ریاست کے تحت ہوتی ہے، ڈائرکٹر جنرل پولیس (لا اینڈ آرڈر) کی تقرری ریاستی حکومت کرتی ہے لیکن مرکزی حکومت نے موثر طریقہ سے ریاست سے یونین پبلک سرویس کمیشن کو آئی پی ایس عہدیداروں کے نام پیش کرنے اور ریاست کے پیش کردہ ناموں میں سے اور اس کے شارٹ لسٹ کردہ تین عہدیداروں تک محدود کرکے اپنی طاقت کا استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر NEET کو متعارف کراتے ہوئے مرکز نے ریاستوں کو میڈیکل کالجس میں طلبہ کو داخلے دینے کا پابند کہا ہے (بشمول وہ کالج جسے پوری طرح ریاستی حکومت نے قائم کیا اور اس کی مکمل فنڈنگ کی) اس کے علاوہ صرف مارکسآ رینکس جو طلباء نے کل ہند سطح کے امتحانات میں حاصل کئے ان کی بنیاد پر ریاستی حکومتوں کو عجیب و غریب بنیادوں پر مرکزی حکومت کی جانب سے جزوی طور پر مالیہ فراہم کی جانے والی اسکیمات کے تحت فنڈس جاری کرنے سے انکار کردیا گیا۔ مثال کے طور پر ریاست کو مرکز نے یہ کہتے ہوئے فنڈس دینے سے انکار کیا کہ ریاست نے نئے اسکولس نہیں کھولے یہاں تک کہ مرکز نے ریاستی حکومت کی اس دلیل کو بھی مسترد کردیا کہ بعض اسکولوں کو اس لئے بند کردیا کہ طلبہ کی تعداد بہت کم تھی۔ اس کی ایک اور وجہ کم شرح پیدائش بھی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مرکز کی بی جے پی حکومت اپوزیشن زیر اقتدار ریاستوں کے ساتھ اس طرح کا متعقبانہ سلوک روا رکھتی ہے لیکن جب بات بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں کی آتی ہے تو پھر ہر چند کو وہ نظرانداز کرکے فنڈس جاری کردیتی ہے۔
مقننہ : دستور کی Concurrent List میں 47+4 اندراجات قانون سازی کے میدان میں ہیں جن پر پارلیمنٹ اور ریاستی مقننہ دونوں قانون سازی کرسکتے ہیں۔ مرکزی حکومت نے ریاستی حکومتوں کو اعتماد میں لئے بغیر کئی ایک شعبوں میں قوانین منظور کئے جن میں سیول طریقہ کار، جنگلات، ادویات (ڈرگس)، اجارہ داری
ٹریڈ یونین: سماجی تحفظ اور سوشل انسورنس کے ساتھ ساتھ مزدوروں (محنت کشوں) کی بہبود، تعلیم، قانون، طب اور دوسرے پیشوں سے متعلق قوانین شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بندرگاہوں، ٹریڈ وکامرس، قیمتوں پر کنٹرول، فیکٹریوں، الیکٹریسٹی، آثار قدیمہ کے مقامات، جائیدادوں کی حصولیابی، اسٹامپ ڈیوٹیز وغیرہ سے متعلق بھی بلز منظور کئے یا قانون سازی کی دفعہ 254(2) ایک ریاستی قانون کو Concurrent List کے موضوع پر بنانے کے قابل بناتا ہے جو اس ریاست میں پہلے کے مرکزی قانون پر غالب ہوگا۔ اگر ریاستی قانون کو صدر جمہوریہ کی منظوری مل جاتی ہے۔ تب ایسا ممکن ہے لیکن مجھے شک ہے کہ تمام معاملات میں اگر یکسانیت نافذکرنے کے جوش میں بی جے پی حکومت کسی بھی صورت میں ریاستی حکومت کو پابند کرے گی، کنکرنٹ لسٹ عملی طور پر یونین لسٹ بن چکی ہے۔ ریاستوں کی منظوری کے بغیر متعدد ہم آہنگ فہرست کے مضامین پر پارلیمنٹ کے قوانین کو منظور کرنے کے عمل کی مذمت کی جانی چاہئے۔ اس کی بدترین مثال حال ہی میں منظور ہونے والے تین فوجداری قوانین ہیں جبکہ فوجداری قانون اور فوجداری طریقہ کار Concurrent List میں ہیں۔ مرکزی حکومت نے ریاستی حکومتوں پر ایک معاملہ میں شدید تنقید کی ہے حالانکہ فوجداری بلز میں پبلک آرڈر سے متعلق ریاستوں کو اختیارات کم کرنے کی کوشش کی گئی جبکہ پبلک آرڈر اور پولیس ریاست کا موضوع ہے۔
مالیہ : بی جے پی حکومت کے مالی احتیارات کے بے رحمانہ استعمال سے کہیں زیادہ وفاقیت کا غلط استعمال واضح نہیں ہے۔ یہ انکشاف ہوا ہیکہ وزیر اعظم نے 14 ویں مالیاتی کمیشن کو ٹیکس محصولات میں ریاستوں کے مجوزہ حصہ کو کم کرنے کی ہدایت دینے کی کوشش کی۔ اس کے بعد خالص ٹیکس میں ریاستوں کا حصہ 41 فیصد کم ہوکر تقریباً 31 فیصد رہ گیا ہے۔