٭ پرانے وعدوں پر عمل نہیں لیکن چیف منسٹر کے نئے وعدے جاری
٭ دلت بندھو اسکیم کیلئے تین ہزار کروڑ کی ضرورت
٭ کنٹراکٹرس کو 13ہزار کروڑ کے بقایا جات ہیں
٭ صرف چار ماہ میں 21ہزار کروڑ روپئے کا نیا قرض
حیدرآباد : 26جولائی ( سیاست نیوز) ایک طرف ریاست کا خزانہ خالی ہے ، حکومت کی آمدنی گھٹ گئی ہے ۔ جو بھی فنڈز دستیاب ہے اس سے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنا حکومت کے ترقیاتی و فلاحی کاموں کی انجام دہی کیلئے قرضوں پر انحصار کرنا پڑرہا ہے ۔ دوسری طرف چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نئے وعدوں پر وعدے کررہے ہیں۔ اس سے قبل کئے گئے وعدوں پر کوئی عمل آوری نہیں ہورہی ہے ۔ عوام سے مزید نئے وعدے کئے جارہے ہیں ۔ پرانے وعدوں کو بازو رکھنے پر بھی نئے وعدوں کیلئے فنڈز کہاں کہاں سے آئیں گے ، یہ سب سے بڑا سوال ہے ۔ فی الحال ریاست کو ماہانہ جو آمدنی حاصل ہورہی ہے کیا وہ ان نئے وعدوں کی عمل آوری کیلئے کافی ہوں گے ؟ یا پھر قرض پر قرض کرنا پڑے گا ؟ ۔ اس طرح قرضوں پر انحصار کیا جائے تو ریاست کا مستقبل غیر یقینی ہوجائے گا ۔ حکومت کے پاس ان چیلنجس سے نمٹنے کیلئے کوئی متبادل راستہ ہے کیا ۔ اس پر ریاست میں ماہرین معیشت کے درمیان نئی بحث چھڑ گئی ہے ۔ چیف منسٹر نے دلت بندھو نئی اسکیم کا اعلان کیا ہے ۔ اس اسکیم پر عمل آوری کیلئے 3ہزار کروڑ روپئے کی ضرورت ہے جبکہ چیف منسٹر نے ضرورت پڑنے پر ایک لاکھ کروڑ روپئے بھی خرچ کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اس اسکیم پر عمل آوری کیلئے 3 ہزار کروڑ روپئے کی ضرورت ہے جبکہ چیف منسٹر نے ضرورت پڑنے پر ایک لاکھ کروڑ روپئے بھی خرچ کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ ساتھ ہی آج سے ریاست بھر میں نئے
راشن کارڈس جاری کئے جارہے ہیں ۔معمرین پنشن کی عمر 65سال سے گھٹاکر 57سال کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ نئے راشن کارڈس کی اجرائی سے حکومت پر ماہانہ 20کروڑ روپئے کا زائدمالی بوجھ عائد ہوگا ۔ چیف منسٹر نے سرکاری اسکولس میں بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کیلئے جاریہ سال 2ہزار کرور روپئے خرچ کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ معمرین کی عمر 65 سال سے گھٹاکر 57 سال کرنے پر معمرین کے پنشن کی فہرست میں 7 لاکھ افراد کا اضافہ ہوگا جس سے حکومت پر ماہانہ 140 کروڑ اور سالانہ 1680 کروڑ کا اضافی بوجھ عائد ہوگا ۔ریاست میں مختلف ترقیاتی کام انجام دینے والے کنٹراکٹرس کو حکومت کی جانب سے 13 ہزار کروڑ روپئے کے بقایاجات ادا کرنا ہے ۔ محکمہ عمارت و شوارع میں 800 کروڑ محکمہ پنچایت راج میں 200 کروڑ ۔ اس طرح تمام محکمہ جات کے ماہانہ 500 کروڑ روپئے کے بلز ادا نہیں کئے جارہے ہیں ۔ سال 2018ء میں کسانوں کے ایک لاکھ روپئے تک قرض معاف کرنے کاوعدہ کیا گیا ،ابھی تک صرف 25ہزار روپئے کا قرض ہی معاف کیا گیا جبکہ اس کیلئے بجٹ میں 5225 کروڑ روپئے مختص کئے گئے مگر فنڈ ز کی کمی
کے باعث اس وعدے پر عمل آوری نہیں ہوئی ۔ حکومت کی آمدنی بڑی حد تک گھٹ گئی ہے ۔ سال 2021-22ء کیلئے حکومت نے 2,30,825,96 کروڑ روپئے کی بجٹ تجاویز پیش کی ہیں جس میں ٹیکسو ں کے ذریعہ 1,06,900 کروڑ روپئے وصول ہونے کا اندازہ لگایا یعنی ماہانہ 9000 کروڑ روپئے آمدنی ہونے کا اندازہ لگایا گیا لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے حکومت کو توقع کے مطابق آمدنی نہیں ہوئی جبکہ جاریہ مالیاتی سال میں تاحال حکومت نے 21ہزار کروڑ روپئے کاقرض حاصل کیا جبکہ سال بھر میں 45,509,59 کروڑ کا قرض حاصل کرنے کا بجٹ میں تذکرہ کیا گیا تھا ۔
