ریاست میں 6 سال کے دوران قرض کے سود پر تین گنا اضافہ

   


سال 2014-15 میں 5195 کروڑ ،جاریہ مالیاتی سال کے اواخر 15 ہزار کروڑ سود ادا کرنا ہوگا
حیدرآباد :۔ ریاست پر بڑھتا ہوا قرض کا بوجھ تشویشناک صورتحال اختیار کررہا ہے ۔ ریاست کے مجموعی بجٹ کا 10 فیصد حصہ صرف سود کی ادائیگی پر خرچ ہورہا ہے ۔ کاگ رپورٹ کے اعداد و شمار سے اس کا انکشاف ہوا ہے ۔ علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد سال 2014-15 میں جو سود ادا کیا گیا سال 2020-21 میں یہ سود بڑھ کر تین گنا زیادہ ہوگیا ۔ حکومت قرض کے بوجھ کو کم کر کے اپنی آمدنی کو زیادہ کرنے کی طرف توجہ دے رہی ہے ۔ ایف آر بی ایم کے قواعد کے مطابق قرض حاصل کرتے ہوئے ریاست کی ترقی اور فلاح و بہبود پر اسکیمات کرنے کا عمل کئی دہوں سے جاری ہے ۔ سال 2014-15 میں قرض پر 5,195 کروڑ روپئے کا سود ادا کیا گیا جو اب بڑھ کر جاریہ سال 15 ہزار کروڑ روپئے تک پہونچ گیا ہے ۔ گذشتہ سال دسمبر تک 11,500 کروڑ روپئے سود ادا کیا گیا ۔ باوثوق ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ چیف منسٹر کے سی آر نے محکمہ فینانس کے عہدیداروں کو ہدایت دی کہ وہ قرض پر انحصار کرنے کے بجائے ریاست کی ذاتی آمدنی بڑھانے کے لیے نئی پالیسیاں اور حکمت عملی تیار کریں تاکہ ریاست پر بڑھتے ہوئے قرض کو آہستہ آہستہ کم کیا جاسکے ۔ جس کے بعد عہدیداروں کی جانب سے آئندہ دو سال میں ریاست کی آمدنی میں اضافہ کرنے کے لیے اراضیات کی فروختگی ، مائننگ کے ہراج اور اکسائیز آمدنی میں اضافہ کرنے کے لیے اپنی ساری توجہ مرکوز کرچکی ہے ۔ سال 2021-22 کے بجٹ میں قرض حاصل کرنے کی تجاویز کو گھٹانے کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جارہا ہے ۔ اخراجات اور فلاحی اسکیمات پر عمل کرنے کے لیے 95 ہزار کروڑ روپئے کے مصارف ہیں اس کو مد نظر رکھتے ہوئے حقائق سے قریب بجٹ کی تیاری پر توجہ دی جارہی ہے ۔ اراضیات کی فروخت سے 15 ہزار کروڑ کی آمدنی حاصل کرنے کی تجاویز تیار کی گئی ہیں ۔ اکسائیز اور مائننگ کے ہراج سے جملہ 20 ہزار کروڑ روپئے کی آمدنی ہونے کا اندازہ لگایا جارہا ہے ۔۔